جو بائیڈن اور کملا ہیرس کا انتخاب: کیا کملا ہیرس کے نائب صدر بننے سے انڈین شہری مزید بااختیار ہو جائيں گے؟

جو بائیڈن اور کملا ہیرس

،تصویر کا ذریعہEPA

    • مصنف, شاداب نظمی
    • عہدہ, نمائندہ بی بی سی

امریکہ میں نائب صدر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک امیدوار کی حیثیت سے کملا ہیرس کے اعلان کے بعد ہی سے انڈین نژاد امریکی شہریوں میں ایک نئے جوش کی لہر دوڑ گئی تھی۔

کملا ہیرس کے والد جمیکا سے امریکہ آئے تھے اور اُن کا نام ڈونلڈ ہیرس تھا۔ کملا کی والدہ شیاملن گوپالن انڈین نژاد تھیں اور وہ انڈیا کے جنوبی شہر چینئی میں پیدا ہوئی تھیں۔

ڈونلڈ ہیرس کی امریکہ میں آمد کے ایک سال بعد سنہ 1965 میں امیگریشن اینڈ نیشنیلٹی ایکٹ منظور ہوا تھا اور اس قانون کے تحت پیدائش کے بجائے کام کی بنیاد پر امریکی شہریت دینے کا اعلان ہوا تھا۔ اس کے بعد ایشیا سے لوگ بڑی تعداد میں امریکہ پہنچنے لگے۔

اس پس منظر کے ساتھ کملا ہیرس کی امریکی انتخاب میں جیت کو انڈیا اور امریکی میں موجود انڈین کمیونٹی کافی اہمیت کا حامل قرار دے رہی ہے۔

امریکہ میں انڈین نژاد امریکی شہریوں کی تعداد کتنی ہے؟

سنہ 1957 میں دلیپ سنگھ سوند پہلے انڈین نژاد امریکی تھے جو امریکی ایوان نمائندگان میں منتخب ہوئے تھے اور اُن کے بعد پیوش ’بابی‘ جندل اور پرمیلا جیپال جیسے کئی دوسرے افراد امریکی ایوان نمائندگان میں منتخب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ کی آبادی کا 1.5 فیصد حصہ انڈین نژاد شہریوں پر مشتمل ہے۔ امریکہ کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2000 میں امریکہ میں 19 لاکھ انڈین آباد تھے جو سنہ 2015 تک تقریباً دگنے ہو کر 39 لاکھ 82 ہزار ہو چکے تھے۔

کیپیٹل ہل

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنکیپٹل ہل میں حلف برداری کی تقریب ہوگی

امریکہ میں انڈین نژاد لوگوں کی نہ صرف ایک موثر تارکین وطن گروہ کی سی حیثیت ہے بلکہ دوسرے تارکین وطن گروپس کے مقابلہ میں اُن کا تعلیمی پس منظر بھی اچھا ہے۔

تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق امریکہ میں مقیم 40 فیصد انڈین ماسٹرز کی ڈگری رکھتے ہیں اور اس گروہ کا صرف 7.5 فیصد حصہ ہی امریکہ میں رہتے ہوئے خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہا ہے۔ اگر مجموعی بات کی جائے تو امریکہ کی 15.7 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔

لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اتنی کم تعداد میں ہونے کے باوجود انڈین نژاد امریکی شہری امریکہ کی سیاست کو متاثر کر سکتے ہیں؟ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ انڈین امریکنز حقیقت میں کس طرح ووٹ ڈالتے ہیں۔

کاملا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

انڈین نژاد امریکی ووٹرز کی تفصیلات

امریکہ میں 40 لاکھ انڈین نژاد امریکی آبادی مقیم ہے۔ میکسیکو کے بعد یہ امریکہ میں تارکین وطن کی سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ امریکی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2000 سے 2018 کے درمیان انڈینز کی آبادی میں 137.2 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

ان میں سے بیشتر نیو یارک، شکاگو، سان جوز اور سان فرانسسکو جیسے بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔ صرف نیویارک میں چھ لاکھ سے زیادہ انڈینز آباد ہیں، جبکہ شکاگو میں دو لاکھ سے زیادہ انڈینز رہتے ہیں۔

پیو ریسرچ کے مطابق جب بات امریکہ سے باہر پیدا ہونے والے ووٹرز کی ہوتی ہے تو میکسیکو اور فلپائنی لوگوں کے بعد انڈینز امریکہ میں تیسری سب سے بڑی تعداد ہوتی ہے۔

سنہ 2016 میں ہونے والے ایک سروے (این اے اے ایس پوسٹ الیکشن) میں بتایا گیا ہے کہ 48 فیصد انڈین نژاد امریکی ڈیموکریٹ ہیں یا ان کا رحجان ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف ہے جبکہ صرف 22 فیصد انڈینز ہی رپبلکن ہیں۔

صدارتی انتخاب کے قریب آتے ہی رپبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی کے درمیان انڈین ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے کا مقابلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ رجحان گذشتہ چند دہائیوں میں سامنے آیا ہے۔

انڈین امریکی ووٹروں کی سخت مقابلے والی ریاستوں جیسے فلوریڈا، پنسلوینیا اور مشیگن میں اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ ان کے پاس ریاستی انتخابات میں نتائج کو الٹنے کی صلاحیت ہے۔

آئی اے اے ایس کے حالیہ سروے کے مطابق 70 فیصد سے زیادہ انڈین نژاد امریکیوں نے نومبر میں ہونے والے انتخابات میں ٹرمپ کے خلاف بائیڈن کو ترجیح دینے کا اشارہ کیا تھا۔

بائیڈن اور ٹرمپ

H1B ویزا: ٹرمپ بمقابلہ بائیڈن

انڈینز دنیا میں سب سے زیادہ H1B ویزا رکھنے والے افراد میں شامل ہیں۔ عالمی تناظر میں اس پر نظر ڈالیں تو انڈین سالانہ 85 ہزار H1B ویزوں میں سے 70 فیصد ویزے حاصل کر لیتے ہیں۔

لیکن انتخابات سے ٹھیک قبل ٹرمپ نے انڈینز کے ’امریکن خواب‘ ہلا کر رکھ دیا تھا۔

پچھلے سال کے آغاز میں ٹرمپ نے امریکی ملازمتوں کو ’بچانے‘ کے لیے ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے۔ یہ حکم نامہ وفاقی ایجنسیوں کو غیر ملکیوں کی خدمات حاصل کرنے پر پابندی لگاتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو H1B ویزے پر آئے تھے۔ آئی ٹی میں کام کرنے والوں کو یہ صدمہ پہنچا جو ہر سال اس ویزے پر امریکہ آتے ہیں۔

اس کا اثر ستمبر میں اے اے پی آئی کے سروے میں ظاہر ہوا جب 35 فیصد ایشین انڈینز نے ٹرمپ کے صدر بننے کو ناپسند کیا۔

اب بہت سارے انڈینز انتخابات میں فتح حاصل کرنے والے جو بائیڈن کی جانب پرامید نظروں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ انھوں نے گذشتہ سال انڈیا کی یوم آزادی کے موقع پر ایچ ون بی ویزے کے متعلق کہا تھا: ’میرا دل آپ سب کے ساتھ ہے جو نفرت کا شکار ہوئے ہیں، جنھیں امیگریشن کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑاہے۔ اس میں ایچ ون بی ویزے کے بارے میں اچانک کیا جانے والا فیصلہ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے اب تک امریکہ مستحکم ہوتا رہا ہے۔‘

کاملا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس سے قبل 84 فیصد انڈین نژاد امریکیوں نے انتخابات میں اوباما کو ووٹ دیا تھا۔

ڈیموکریٹس اقلیتوں اور تارکین وطن کے بارے میں رپبلکن سے زیادہ نرمی برتتے رہے ہیں۔

اور اب کملا ہیریس کے نائب صدر بننے کے ساتھ ہم مزید انڈین نژاد امریکیوں کو نئی امریکی حکومت میں اہم ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔

امید ہے کہ امریکہ میں ہم آنے والے دنوں میں انڈینز کا روشن مستقبل دیکھ سکیں گے۔