بینکنگ سیکٹر اور خواتین: مردوں کی اجارہ داری والے بینکنگ اور مالیاتی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کون ہیں؟

- مصنف, جسٹن ہارپر
- عہدہ, بزنس رپورٹر، بی بی سی نیوز
برطانیہ کے ایک بینک ’سٹارلنگ‘ کی بانی این بوڈین لوگوں کو غلط ثابت کرنا چاہتی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مردوں کے مقابلے میں خواتین کو زیادہ محنت کرنی چاہیے، اپنے آپ میں بہتری لانی چاہیے اور زیادہ کامیاب ہونا چاہیے تب جا کر انھیں نوکری ملتی ہے۔‘
مس بوڈین سٹارلنگ میں بطور چیف ایگزیکٹیو خدمات سرانجام دے رہی ہیں، یہ بینک تیزی سے ترقی کر رہا ہے اور اسی ترقی کو دیکھتے ہوئے چند بڑے بینک اسے خریدنے سے متعلق مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’خاتون ہونے کے باعث میرے ساتھ مختلف سلوک روا رکھنے کا تجربہ مجھے مزید محنت کرنے اور اُن سب کو غلط ثابت کرنے کے لیے میرا حوصلہ بڑھاتا ہے۔‘
دنیا بھر میں بینکس اور مالیات کے شعبوں میں عام طور پر مردوں کی اجارہ داری دیکھنے کو ملتی ہے تاہم اب یہ رجحان بدل رہا ہے اور زیادہ تعداد میں خواتین ان شعبوں کا رُخ کر رہی ہیں اور اپنی صلاحتیوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔
ستمبر میں امریکہ کے ایک بڑے بینک ’سٹی گروپ‘ نے جین فریزر نامی خاتون کو چیف ایگزیکٹیو تعینات کیا تھا۔ برطانوی نژاد جین کسی بھی وال سٹریٹ بینک کی پہلی خاتون سربراہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ڈیجیٹل بینکس اور فن ٹیک سے منسلک نئے کاروباروں کے عروج کے باعث خواتین کے لیے فیصلہ ساز عہدوں پر موجود ہونے کے دستیاب مواقعوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
تاہم اب بھی خواتین کے لیے بینکنگ کی دنیا میں ترقی حاصل کرنے کے لیے متعدد چیلنجز موجود ہیں۔ مس بوڈین بتاتی ہیں کہ ’سلیکون ویلی سے سرمایہ کاری کے لیے خاصی تگ و دو کرنی پڑی۔ ایسا محسوس ہوا کہ اکثر سرمایہ دار صرف سفید فام مردوں کی حمایت ہی کرنا چاہتے تھے کیونکہ یہ نئے کاروبار چلانے سے متعلق ایک دقیانوسی سوچ کے عین مطابق تھا۔‘

،تصویر کا ذریعہStarling Bank
نئی نسل
مالیاتی سیکٹر میں کمپنیاں فیصلہ سازی پر معمور افراد اور بورڈ آف ڈائریکٹرز میں خواتین کی شمولیت کی خواہاں تو ہیں لیکن اکثر افراد کے خیال ہے کہ اس کے لیے انتہائی سست روی سے کام کیا جا رہا ہے۔
مس بوڈین کا کہنا ہے کہ ’صنفی عدم توازن کو ختم کرنے کے لیے ابھی ایک عرصہ لگے گا اس لیے یہ اہم ہے کہ میری طرح کی خواتین جو فیصلہ ساز عہدوں پر موجود ہیں اس حوالے سے آواز اٹھائیں۔‘
’میں برطانوی بینک بنانے والی پہلی خاتون بننا چاہتی تھی، نہ صرف اس لیے کہ مجھے معلوم تھا کہ میں اپنا بینک کتنا بہتر بنا سکتی تھی بلکہ اس لیے بھی تاکہ اس سے دوسروں کی حوصلہ افزائی کی جا سکے اور روایتی طور پر مردوں کی اجارہ داری والی صنعت میں کچھ نیا کر سکوں۔‘
وہ اس صنعت کا حصہ بننے والی خواتین کے لیے اکیلی مثال نہیں ہیں۔ یوکو ماکی گوچی ریولٹ نامی برطانوی بینک کے جاپانی آپریشنز کی چیف ایگزیکٹیو ہیں۔
انھوں نے اس سے قبل متعدد بینکس میں کام کر رکھا ہے جیسے گولڈ مین ساکس، کریڈٹ سوئیز، یو بی ایس، ملہاؤس سکیوریٹیز اور لیمین برادرز، لیکن انھیں کہیں بھی سینیئر عہدہ نہیں دیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہRevolut
’سپر وومن‘ سنڈروم
انھوں نے اپنے کریئر کی ابتدا 27 برس پہلے کی اور اب آخرکار جاپان کی ریولٹ کمپنی کی اعلیٰ عہدے پر فائز ہو چکی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ کسی دوسرے بینک میں نہیں ہو سکتا۔‘
مس ماکی گوچی کا کہنا ہے کہ ’کریئر اور بچوں کی ذمہ داریوں کے درمیان ’سپر وومن سنڈروم‘ بن جاتا ہے (یعنی وہ خاتون جو سب کچھ کر سکتی ہے۔)‘
’آپ جتنے سینیئر ہوتے جاتے ہیں آپ اپنے آپ کو پرکھنے کے لیے پیمانے بھی تبدیل کر لیتے ہیں۔ آپ ایک بہترین بیوی، ماں اور ملازمت کے دوران بھی بہترین کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنی کم مثالیں ہوتی ہیں جنھیں دیکھ کر ہم کچھ مدد حاصل کر سکیں کہ ہم اپنے آپ پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیتے ہیں اور بس زندہ رہنے کے لیے جینے لگتے ہیں۔‘
انھوں نے روایتی بینکوں میں بھی کام کیا ہے اور اب ڈیجیٹل بینک میں کام کرنے کے بعد وہ کلچر میں فرق اور خواتین کے لیے نئے مواقعوں میں اضافے کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہیں۔
’(ڈیجیٹل بینک) زیادہ آزاد خیال ہیں اور یہ خواتین کے لیے کام کرنے کے دورانیے اور گھر سے کام کرنے کے حوالے سے لچک دکھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے بینک میں خواتین کی بڑی تعداد فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہAegis Custody
’میں ناکام نہیں ہو سکتی‘
سیرا وی سنگاپور میں موجود ایک فنٹیک کمپنی ایگیز کسٹّڈی کی چیف ایگزیکٹیو ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انھیں اب بھی ’صنف اور عمر کی بنا پر امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور میری قابلیت اور کامیابیوں کی بنا پر مجھے پرکھا نہیں جاتا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’عوام کے خواتین رہنماؤں کو پرکھنے سے متعلق مختلف پیمانے ہوتے ہیں اور مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں ناکام نہیں ہو سکتی یا کوئی غلطی نہیں کر سکتی کیونکہ ایک بھی غلطی کے باعث مجھ پر بہت زیادہ تنقید کی جاتی۔‘
مس وی امریکی ٹیکنالوجی کمپنی اوریکل کی چیف ایگزیکٹیو اور ارب پتی سیفرا کیٹز کی بہت بڑی مداح ہیں اور وہ ان سے سٹینفورڈ بزنس سکول میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران ان سے پڑھ بھی چکی ہیں۔
اس دوران جو سبق انھوں نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اس معاملے کو جنس کے درمیان مقابلہ نہیں سمجھنا چاہیے۔
عالمی وبا کے باعث دھچکا
گذشتہ ماہ 2020 میں کاروباروی خواتین سے متعلق شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے خواتین پر مردوں کے مقابلے میں مضر اثرات ہو سکتے ہیں اور متنوع قیادت کے لیے کی جانے والی کوششوں پر بھی اثر انداز ہو گی۔
فاسیٹ سوسائٹی نے بھی خبردار کیا ہے کہ عالمی وبا کے باعث دفاتر میں صنفی برابری پر ’تباہ کن‘ اثرات پڑ سکتے ہیں۔
حالانکہ فلاحی ادارے نے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس حوالے سے ’امید افزا مثالیں‘ بھی موجود ہیں لیکن اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین کو کام سے نکالنے یا ان پر بچے کی پرورش کا بوجھ ڈالنے کے زیادہ امکانات موجود ہیں۔
تاہم ماہرین دنیا کی ان خواتین رہنماؤں کی مثال دیتے ہیں جنھوں نے کووڈ 19 پر قابو پانے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی کامیابی سے سربراہی کی۔
ان رہنماؤں میں نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جسنڈا آرڈرن، جرمن چانسلر اینگلا مرکل اور تائیوان کی صدر سائی انگ وین شامل ہیں۔










