امریکی صدارتی انتخاب 2020 کے نتائج: ٹرمپ یا بائیڈن، جیت کس کے لیے آسان ہو گی؟

    • مصنف, انتھونی زورچر
    • عہدہ, بی بی سی، شمالی امریکہ

امریکی صدارتی انتخاب کا دن گزر گیا اور اب ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے، چند متوقع نتائج سامنے آئے ہیں مگر اب بھی یہ فیصلہ ہونا باقی ہے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔

فتح سے ہمکنار ہونے والے امیدوار کا تعین ہونے میں ابھی اور وقت لگے گا تاہم امریکی عوام کی جانب سے ڈالے گئے 16 کروڑ ووٹوں کی گنتی کے عمل کے دوران متوقع نتائج کی کچھ کچھ تصویر نمایاں ہونا شروع ہو گئی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے پہلے ہی اپنی بے بنیاد جیت کا اعلان کرتے ہوئے حریف جماعت پر الیکشن میں دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں جن کے انھوں نے کوئی شواہد اور ثبوت فراہم نہیں کیے ہیں۔

انھوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر غلط معلومات اور اختلاف پر مبنی سلسلہ وار ٹویٹس کیں جس میں انھوں نے حریف جماعت پر ووٹوں میں دھاندلی کا دعویٰ کیا، ان ٹویٹس پر ٹوئٹر انتظامیہ نے انتباہ کے نوٹس بھی چسپاں کیے ہیں۔

البتہ اس وقت یہ نقطہ اہم نہیں ہے کیونکہ اب بھی ڈالے گئے لاکھوں قانونی طور پر درست ووٹوں کی گنتی کی جا رہی ہے۔ اب جبکہ امریکی ریاست مشیگن سے موصول ہونے والے متوقع نتائج کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہاں سے جو بائیڈن جیت رہے ہیں، جبکہ امریکی میڈیا نے امریکی ریاست وسکونسن سے بھی بائیڈن کی جیت کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

ایسے میں صدارتی انتحاب کی دوڑ کا مقابلہ مزید کانٹے دار ہوتا جا رہا ہے اور اس مقابلے کے فیصلے کا دارومدار محض ایریزونا، نیواڈا، جارجیا اور پنسلوینیا کی ریاستوں سے ملنے والے نتائج تک محدود ہو گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اب تک کے متوقع نتائج کے مطابق جو بائیڈن نے 243 الیکٹورل ووٹس حاصل کیے ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں ٹرمپ 214 الیکٹورل ووٹس حاصل کر چکے ہیں۔ امریکی صدارتی دفتر تک رسائی کے لیے کل 270 الیکٹورل ووٹس کی ضرورت ہے۔

جو بائیڈن کیسے جیت سکتے ہیں؟

اگر آسان الفاظ میں کہا جائے تو ڈیموکریٹس کے امیدوار جو بائیڈن کو امریکی ریاستوں ایریزونا، نیواڈا اور وسکونسن میں اپنی برتری قائم رکھنی ہے۔ اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ امریکی صدر بننے کے لیے مقررہ 270 الیکٹورل ووٹس حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

امریکی ریاست مشیگن کے ڈیموکریٹک حمایتی شہر ڈیٹرویٹ میں بھی علی الصبح پوسٹل ووٹوں کی گنتی کے دوران بائیڈن نے ٹرمپ پر برتری حاصل کر لی تھی، اور سہ پہر تک انھوں نے متوقع نتائج کے مطابق ریاست سے کامیابی حاصل کر لی تھی۔ وسکونس میں بھی حالات ان کے لیے سازگار دکھائی دیتے ہیں، جبکہ رپبلکنز ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

بائیڈن نے امریکی ریاست ایریزونا میں بھی واضح برتری حاصل کر رکھی ہے تاہم ابھی وہاں پوسٹل ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے۔

جبکہ امریکی ریاست نیواڈا میں ان کی برتری کا فرق محض چند ہزار ووٹوں سے ہے، الیکشن کے دن ڈالے گئے زیادہ تر ووٹس رپبلکن کے حق میں پڑے جبکہ پوسٹل ووٹس پر ڈیموکریٹس کی برتری رہی۔ اب تک کے سامنے آنے والے متوقع نتائج کے مطابق بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بائیڈن کو امریکی صدر بننے کی راہ پر زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں ہو گا۔

ٹرمپ کیسے جیت سکتے ہیں؟

جو بائیڈن ہی کی طرح ٹرمپ کو بھی صدارتی دفتر میں براجمان رہنے کے لیے ان ریاستوں میں اپنی برتری قائم رکھنی ہے جہاں وہ اکثریتی ووٹ حاصل کر چکے ہیں۔ جیسا کہ پنسلوینیا اور جارجیا میں ان کی اکثریت واضح ہوتی جا رہی ہے۔

اس کے بعد رپبلکن کے امیدوار ٹرمپ کو کم از کم کسی ایک ایسی ریاست سے فتح حاصل کرنی ہے جہاں بائیڈن اس وقت برتری بنائے ہوئے ہیں۔

اس صورت میں نیواڈا وہ ایک ایسی ریاست ہو سکتی ہیں کیونکہ وہاں جو بائیڈن کی برتری کا فرق بہت کم ہے اور ٹرمپ کو اس ریاست کو اپنے حق میں بدلنے کے لیے زیادہ محنت درکار نہیں ہو سکتی اگر الیکشن کی رات دیر سے پہنچے والے ووٹوں کی گنتی کے دوران ٹرمپ کے حامی آزاد امیدواروں یا رپبلکنز کے امیدواروں کو ووٹ مل جائیں تو صدر ٹرمپ کے لیے دوبارہ امریکی صدر منتخب ہونے کے امکانات بہت روشن ہو جائیں گے۔

ایریزونا کی ریاست بھی صدر ٹرمپ کے لیے اہم فلپ سٹیٹ یعنی وہ ریاست جہاں سے وہ الیکشن کے نتائج تبدیل کر سکتے ہیں ثابت ہو سکتی ہے۔ نیواڈا کی طرح یہاں بھی صرف پوسٹل ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے۔

اس ریاست میں ووٹرز کا بذریعہ ڈاک ووٹ ڈالنے کی روایت رہی ہے لیکن اس ریاست میں ڈیموکریٹس نے ان ووٹرز سے اس طرح کا فائدہ حاصل نہیں کیا جیسا کہ انھوں نے دیگر ریاستوں میں حاصل کیا ہے۔ بائیڈن کو نیواڈا میں معمولی برتری کے مقابلے میں ایریزونا میں واضح برتری حاصل ہے لیکن یہاں حالات تبدیل ہونے ممکن ہیں۔

جیسا کہ ریاست وسکونسن صدر ٹرمپ کے لیے مایوس کُن ثابت ہو رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے اس ریاست سے بہت امید باندھ رکھی تھی لیکن یہاں سے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق یہ ریاست ان کے ہاتھ سے نکلتی دکھائی دیتی ہے۔

بائیڈن کی متبادل حکمت عملی

ٹرمپ کے امریکی صدر کے دفتر پر براجمان رہنے کا ممکنہ راستہ جارجیا اور پنسلوینیا کے ریاستوں میں اپنی واضح اکثریت قائم رکھنے سے ہو کر گزرتا ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ان دونوں ریاستوں میں آسان مقابلہ کر رہے ہیں۔

ابھی ان ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے جو ڈیموکریٹس کے حمایتی علاقوں جیسا کے اٹلانٹا کے علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

پنسلوینیا میں بھی ابھی دس لاکھ سے زیادہ پوسٹل ووٹوں کی گنتی ہونا باقی ہے۔ اگرچہ ٹرمپ کے پاس اس اہم ریاست میں واضح برتری ہے لیکن ووٹوں کی گنتی کے دوران وہ رحجان جو وسکونسن اور مشی گن میں دیکھا گیا یہاں بھی اپنا رنگ دکھا سکتا ہے۔

اگر بائیڈن پنسلوینیا سے کامیاب ہو جاتے ہیں تو وہ ایریزونا اور نیواڈا سے شکست برداشت کر سکتے ہیں۔ اگر بائیڈن جورجیا سے نتائج تبدیل کر لیں تو وہ کسی ان ریاستوں میں سے کسی ایک ریاست سے شکست کو برداشت کر سکتے ہیں اور ان کی صدارتی دفتر کی راہ پر یہ شکست اثر نہیں ڈالے گی۔

دوسرے الفاظ میں ٹرمپ کے برعکس بائیڈن کے پاس صدارتی دفتر تک پہنچنے کے لیے مخلتف آپشنز موجود ہیں، چاہے ان آپشنز کا ممکن ہونا بہت مشکل ہیں لیکن یہ ہو بھی سکتے ہیں۔

قانونی لڑائی کے سائے

امریکی صدارتی انتخاب کا حتمی فیصلہ جو بھی ہو لیکن جو بائیڈن کی جیت کے دعویٰ اور ٹرمپ کے حریف جماعت پر بنا کسی ثبوت کے انتخابی دھاندلی اور الیکشن چوری کرنے کے الزامات کے باعث ایک اور خوفناک صورتحال ابھر کر سامنے آ رہی ہے۔

یہ ایک تلخ اور لمبی قانونی لڑائی کی بات ہے جو ہارنے والی جماعت کے حمایتوں کو غصے اور دھوکے کے احساس میں ڈال دے گی۔ ٹرمپ کی ٹیم نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ وہ وسکونسن میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کا مطالبہ کریں گے۔

البتہ حتمی نتائج کا اب تک علم نہیں ہے لیکن جو بات الیکشن کی رات واضح ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ ایک منقسم قوم ہی رہے گی۔ امریکی ووٹرز نے واضح طور پر ٹرمپ کو مسترد نہیں کیا نہ ہی انھوں نے انھیں وہ حمایت ظاہر کی جس کی وہ امید کر رہے تھے۔

بلکہ اس کے درمیان کی صورتحال ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس سے بالاتر کے یہ الیکشن کون جیتتا ہے مگر دونوں جماعتوں کے حمایتیوں کے درمیان یہ سیاسی جنگ جاری رہے گی۔