تجزیہ: اسرائیل میں امریکی صدارتی انتخاب کے بعد تبدیلی پر غور و فکر

    • مصنف, جؤل گرینبرگ
    • عہدہ, اسرائیل سپیشلسٹ، بی بی سی مانیٹرنگ

امریکی صدارتی انتخاب سے قبل رائے عامہ کے جائزوں میں ڈیموکریٹک امیدوار جو بائڈن کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر واضح برتری کے تناظر میں اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر مبصرین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ان کی حکومت وائٹ ہاؤس (ایوان صدر) کی سوچ میں ممکنہ تبدیلی کے لیے تیار ہے۔

صدر ٹرمپ نے مستقلاً وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے جارحانہ موقف کا ساتھ دیا ہے، وہ چاہے ایران کے جوہری معاہدے سے علیحدگی ہو، یا مشرق وسطی میں ایسے امن منصوبے کی تجویز جس کے تحت کسی حتمی سمجھوتے میں یہودی نو آبادیوں سمیت مقبوضہ غرب اردن کے تقریباً 30 فیصد علاقے کی اسرائیل میں شمولیت۔

انھوں نے متنازع بیت المقدس (یروشلم) کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد امریکی سفارتخانہ وہاں منتقل کیا، اور مقبوضہ جولان پہاڑیوں پر اسرائیل کی حاکمیت تسلیم کی۔ اسرائیل نے یہ جگہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں شام سے چھینی تھی اور بعد میں یکطرفہ طور پر اس پر اپنا تسلط جما لیا تھا۔

نتن یاہو نے ٹرمپ کو ’وائٹ ہاؤس کے اندر اسرائیل کا عظیم ترین دوست’ قرار دیا تھا، اور ان کی جگہ بائڈن کے آنے سے یہ خدشات پختہ ہو رہے ہیں کہ اسرائیلی وزیراعظم کی پالیسیوں کو ویسی ہی قبولیت نہیں مل سکے گی۔

نتن یاہو اور گذشتہ ڈیموکریٹک صدر، براک اوباما، کے تعلقات میں زیادہ گرمجوشی نہیں تھی، ایران کے سے متعلق پالیسی اور فسلطینیوں کے ساتھ تنازع ختم کرنے کے لیے کی جانے والی کوششوں پر شدید اختلافات رہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اسرائیلیوں کی اکثریت باور کرتی ہے کہ بائڈن کے مقابلے میں ٹرمپ اسرائیل کے زیادہ حامی ہوں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹرمپ کو اسرائیل میں رہنے والے امریکی یہودی تارکین وطن کی بھی زبردست حمایت حاصل ہے۔

اسرائیل، امریکہ تعلقات کے ماہر آتان گِلباؤ نے روزنامہ گلوب میں لکھا کہ ٹرمپ کے ’ڈرامائی اقدامات ان اسرائیلی مفادات سے میل کھاتے ہیں جنھیں یکے بعد دیگرے مختلف اسرائیلی حکومتوں نے طے کر رکھا ہے اور جن کے بارے میں اسرائیل کے اندر وسیع اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے۔‘

گِلباؤ کے خیال میں ’کسی امریکی صدر کے ساتھ تعاون کے ایسے دور کی مستقبل قریب میں واپسی غیریقینی ہے۔‘

اسرائیل کے لبرل روزنامے ہیرٹز میں کالم نگار شیمی شالیو لکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی جیت نتن یاہو کے لیے تقویت کا باعث ہوگی، جبکہ بائڈن کی فتح کو ان کی شکست سمجھا جائے گا۔

کالم نگار شمرِت میئر نے اپنے کالم میں تبصرہ کیا ہے کہ بائڈن کی فتح کا مطلب ہوگا کہ اسرائیل کو امریکی کانگرس میں حمایت حاصل کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑے گی کیونکہ نتن یاہو نے خود کو کلی طور پر ٹرمپ اور ریپبلیکن پارٹی کے ساتھ جوڑ لیا ہے۔

لیبر پارٹی کے سابق رکن پارلیمان نیشمین شائے نے بھی ینت نیوز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بجائے دونوں امریکی سیاسی جماعتوں میں حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی بجائے ’اسرائیل نے ڈیموکریٹک‘ پارٹی کو چھوڑ دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں: ’آنے والے ماہ جنوری، یا زیادہ سے زیادہ اگلی مدت کے بعد، ایک مختلف صدر ہوگا۔ کیا ہم اس دن کے لیے تیار ہیں؟‘