امریکہ کا صدارتی انتحاب 2020: چین امریکہ کے الیکشن میں آخر کس کی جیت چاہتا ہے؟

    • مصنف, جان سڈورتھ
    • عہدہ, بی بی سی نیوز، بیجنگ

امریکہ کا صدارتی انتخاب طویل عرصے سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کے حکمرانوں کے لیے دلچسپی اور چڑچڑے پن کی وجہ رہا ہے۔

بیجنگ میں موجود حکومتی عہدیدار ہمیشہ سے ہی امریکہ کے صدارتی انتخاب پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

لیکن ایک یاد دہانی کہ خود اپنے ملک کے سیاسی مستقبل کے فیصلے میں چین کے 1.4 ارب لوگوں کو کتنا کم حقِ انتخاب دیا جاتا اور یہ کہ چین میں میڈیا کوریج کو سختی سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

اس بار اگرچہ جب امریکی انتخاب پر وبائی مرض اور ایک بکھرے ہوئے معاشی نظام کے سائے ہیں اور گہری سیاسی تقسیم ہے، چین کو احساس ہے کہ کچھ بدل گیا ہے۔

یہ چینی آمریت نہیں بلکہ مغربی جمہوریت ہے جو اچانک قانونی حیثیت کے بحران کا سامنا کرتی دکھائی دے رہی ہے۔

دنیا کی سب سے آزاد اور دولت مند معیشت جسے اپنی شفافیت اور احتساب کی بدولت وائرس سے لڑنے کے لیے بہتر جگہ خیال کیا جا رہا تھا، ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ کے مقابلے میں اگر چین کو دیکھیں، تو کورونا وائرس کے آغاز میں انھوں نے کوشش کی تھی کہ اسے خفیہ رکھیں لیکن بعد میں انھوں نے ملک بھر میں پھیلے ہوئے نگرانی کے نظام کی مدد سے لوگوں کو ٹیسٹ کیا اور انھیں قرنطینہ میں رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔

فیکٹریاں، دکانیں، ریستوران، سکول اور یونیورسٹیاں سب کھلے ہیں، پبلک ٹرانسپورٹ پر لوگوں کی تعداد اوسط سے بس تھوڑی کم ہے اور یہ واحد بڑی معیشت ہے جس کے اس سال سکڑنے کے بجائے ترقی کی توقع کی جا رہی ہے۔

اور یہ سب انھوں نے عوامی طور پر کسی بھی مشاورت کے بغیر کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ملک میں سنسرشپ اتنی سخت ہے کہ کسی بھی شہری کو کسی بھی معاملے میں حکومتی سطح کے کسی بھی فرد کے انتخاب میں فیصلہ کن ووٹ دینے کی اجازت نہیں۔

اس احساس سے کہ کوئی بنیادی چیز خطرے میں ہے اور اس فرق کی وجہ سے اب چین کی سیاسی اقدار کی کمزویوں کو نہیں بلکہ ان کی برتری کو بڑا ریلیف مل رہا ہے۔

چین کے صدر شی جن پنگ نے گذشتہ ماہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا ’چین کی کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں بڑی سٹریٹجک کامیابی نے چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے قابل ذکر فوائد کا مظاہرہ کیا۔‘

یہ ایک پیغام ہے جو سرکاری ٹی وی کے خبرناموں کے ذریعے گھروں میں پھیل رہا ہے، جس میں امریکہ کے نظام صحت کی تباہی کے ساتھ ساتھ غیر منظم انتخابی مہم اور مظاہروں اور احتجاج کی تصاویر بھی شامل ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ جیت کس کی ہو گی، حقیقت یہ ہے کہ امریکی سیاست بیمار ہے اور ان کے وقار اور تکریم کی دنیا بھر میں کمی ہوئی ہے۔

چین کے بڑھتے ہوئے اعتماد کو دیکھنا ہو تو بیجنگ کار شو اس کی بہت اچھی مثال ہے۔

کورونا وائرس کی وبا کے بعد یہ دنیا کا پہلا بڑا کار شو ہے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے اس وبا کو شکست دے دی ہے۔

سوائے وہاں پر چہروں پر ماسک نظر آنے کے اور باقی سب ویسا ہی ہے جب دنیا میں وائرس کی وبا نہیں پھیلی تھی۔

جگہ جگہ پر عوام موجود تھے اور گاڑیوں کے ساتھ تصاویر کھنچوا رہے تھے۔ خوبرو ماڈلز چست کپڑے پہنے گاڑیوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔

گاڑیوں کی یہ نمائش نہ صرف چین کی وائرس کے خلاف جیت کا مظہر ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ چین کس طرح عالمی تجارت کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اس نمائش میں سب سے مہنگی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی چینی کمپنی ہونگ چی نے تیار کی ہے۔ پوری طرح بجلی سے چلنے والی اس گاڑی کی قیمت ساڑھے پانچ لاکھ یوآن یعنی تقریباً 80 ہزار ڈالر ہے۔

ایک زمانے میں یہ کمپنی روسی ڈیزائن پر سادہ گاڑیاں بناتی تھی لیکن اب حالات بدل گئے ہیں۔

اگر ماضی کے امریکی صدر رچرڈ نکسن یہ دیکھتے تو وہ یقیناً کافی حیران ہوتے۔ انھوں نے 1972 میں چین کا دورہ کیا تھا اور انھیں اسی پرانے ڈیزائن والی ہونگ چی گاڑی میں سفر کروایا گیا تھا۔

اس وقت بیجنگ کی سڑکوں پر ٹریفک بھی بہت کم تھی اور یہ آغاز تھا امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کا جو کہ اگلی چار دہائیوں تک بہت اچھا رہا۔

اس دورے کے بعد سے تقریباً تمام امریکی صدور نے اس بات کو سمجھا کہ یہ نہ صرف چین کے لیے بلکہ عالمی کمپنیوں اور امریکہ سمیت پوری دنیا کے لیے اچھا ہے۔

سمجھا یہ گیا کہ اس رشتے سے نہ صرف پوری دنیا میں خوشحالی پھیلے گی بلکہ شاید چین میں سیاسی انقلاب بھی رونما ہو جائے۔

لیکن چین نے اس تبدیلی کو دوسری نظر سے دیکھ، اور وہ تھا عالم اقوام میں اپنا مرکزی کردار دوبارہ حاصل کرنا۔

اور جب سنہ 2016 میں امریکی انتخاب ہوئے تو اس وقت تک چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بن چکا تھا اور امریکہ میں سب سے زیادہ در آمدات چین سے ہوتی تھیں۔

لیکن ساتھ ساتھ چین پر یہ الزامات بھی لگتے رہے کہ انھوں نے صنعتی رازوں کو چرایا ہے اور دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک نسلی گروہ کے ساتھ سب سے زیادہ ظلم بھی وہی کر رہے ہیں۔

اور یہ سنہ 2016 کی انتخابی مہم تھی جب یہ بات دوبارہ سامنے آئی کہ کیا چین سے تجارتی تعلقات قائم کرنا ایک درست فیصلہ تھا یا نہیں۔

اپنی پہلی میعاد کی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کا پیغام یہ تھا کہ ایک شدید تحفظ پسند چین طویل عرصے سے اپنے آپ کو معاشی سپر پاور میں تبدیل کرنے کے لیے آزادانہ تجارت کے وعدوں پر دھوکہ دے رہا ہے۔

ملازمتوں سے محروم ہونے کے معاملے پر انھوں نے زور دیا کہ اس سے امریکی ملازمین کی حالت بدتر ہوئی، بہتر نہیں۔

انھوں نے اس پیغام کو وائٹ ہاؤس تک پہنچایا جس کے بعد سے اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں۔

صدر کی ’جیسا کرو گے ویسا بھرو گے‘ کی تجارتی جنگ اپنے عروج پر ہے اور مجموعی طور پر 362 ارب ڈالر کے سامان کو قابل تعزیر محصولات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس برس ان کی انتظامیہ نے چین پر انسانی حقوق کی پامالیوں کے معاملے پر سیاسی پابندیوں کے ساتھ ساتھ معاشی دباؤ میں بھی اضافہ کیا ہے۔

ہونگ چی ٹریڈ سٹینڈ پر چین کی تیار کردہ گاڑیوں کو دیکھتے ایک شخص سے میں نے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں کہ امریکی انتخاب کون جیتے؟

’شاید بائیڈن، انھوں نے مزید کہا، مجھے ٹرمپ سے نفرت ہے۔‘

میں نے پوچھا کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ چین کے بارے میں بہت سخت ہیں؟

انھوں نے جواب دیا: ’تھوڑا سا اور میرے خیال میں وہ پاگل ہیں۔‘

یہ یقینی طور پر امریکی انٹلیجنس کمیونٹی کا اندازہ ہے جس نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ٹرمپ کی غیر متوقعیت اور بیجنگ پر ان کی سخت تنقید کا مطلب ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت ان کی ہار چاہتی ہے لیکن بیجنگ کی سنگھوا یونیورسٹی میں انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل ریلشینز کے سربراہ پروفیسر یان زویٹونگ اس سے متفق نہیں۔

وہ کہتے ہیں ’اگر آپ مجھ سے پوچھیں کہ چین کی دلچسپی کہاں ہے تو ترجیح بائیڈن کے بجائے ٹرمپ کی ہو گی۔‘

’اس لیے نہیں کہ ٹرمپ بائیڈن کے مقابلے میں چین کے مفادات کو کم نقصان پہنچائیں گے لیکن اس لیے کہ وہ یقینی طور پر امریکہ کو بائیڈن سے زیادہ نقصان پہنچائیں گے۔‘

یہ اس بات کی علامت ہے کہ باہمی فائدے کے لیے معاشی تعلقات کے معاملات کس حد تک خراب ہوئے ہیں۔

ممتاز چینی مبصرین اب کھلے عام یہ بتانے کے لیے تیار ہیں کہ معاشی اور سیاسی طور پر امریکہ کا زوال، چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کے مفاد میں ہے۔

اس نقطہ نظر سے ڈونلڈ ٹرمپ بہتر انتخاب ہیں، جمہوری نظریات کی حمایت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ اکثر انھیں مسترد کرتے ہیں یا ان کو کمزور کرتے ہیں۔

مثال کے طور پر آزادانہ صحافت پر ان کے حملے چینی ریاست کے کانوں میں موسیقی کی حیثیت رکھتے ہیں جو آزاد جانچ پڑتال کی شدید مخالفت کرتے ہیں اور انٹرنیٹ کو اپنی مرضی کے مطابق مزید ڈھالنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

جہاں ایک جانب صدر ٹرمپ کی انتظامیہ نے انسانی حقوق کے حوالے سے چین پر بہت تنقید کی ہے، نظر یہ آتا ہے کہ صدر ٹرمپ کا ایسا کرنا صرف تجارتی اور معاشی فائدہ اٹھانے کے لیے ہے تاکہ وہ چین پر سبقت حاصل کر سکیں۔

صدر ٹرمپ کے سابق مشیر برائے قومی سلامتی، جان بولٹن کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ نے ایک بار چینی صدر شی جن پنگ کو بتایا کہ وہ ان کے اویغور افراد کے ساتھ کیے گئے سخت اقدامات کی تائید کرتے ہیں تاہم صدر ٹرمپ نے اس بات سے انکار کیا ہے۔

ایک جانب صدر ٹرمپ اپنے حریف جو بائیڈن کے چین کے ساتھ قریبی تعلقات کا مذاق اڑاتے ہیں، خیال یہ ہے کہ چین شاید جو بائیڈن کی صدارت سے زیادہ خائف ہو۔

جو بائیڈن کے پاس بہتر موقع ہو گا کہ وہ امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ روابط قائم کر کے ایک ایسا اتحاد قائم کریں جو چین پر دباؤ ڈالنے کے قابل ہو اور چین سے مطالبہ کر سکے کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے مظالم بند کرے۔

کرسچیئن جی ایسے ہی ایک طالبعلم ہیں جن کے بارے میں امریکی سکالرز سمجھتے ہیں کہ یہ ان طلبہ میں سے ہیں جن کو چینی حکومت نشانہ بناتی ہے۔

گذشتہ ماہ ایریزونا میں کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم مسٹر جی کا ویزا منسوخ کر دیا گیا تھا۔ ایسا واشنگٹن کی طرف سے یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم سینکڑوں چینی محققین کے فوج کے ساتھ روابط رکھنے کے شبے میں کیا گیا تھا۔

بعد میں ان کا ویزا بحال کر دیا گیا اور باوجود اس تجربے کے جس کی وجہ سے وہ صدر ٹرمپ پر غصہ ہوئے، ان کی امریکہ کے بارے میں رائے تبدیل نہیں ہوئی۔

بیجنگ کے ایک چائے خانے میں جب ہماری ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھے بتایا: ’مجھے واقعی میں امریکہ کا ماحول پسند ہے۔‘

’یہاں چین سے کم آلودگی ہے اور تعلیم زیادہ تر افکار پر مبنی ہے۔ چین میں اس کی زیادہ تر توجہ صحیح یا غلط پر ہے۔‘

یہ ایک یاد دہانی ہے کہ چین کے اس بڑھتے ہوئے اعتماد کہ مغربی جمہوریت بحران کا شکار ہے، کے باوجود بہت سے لوگ امریکی اقدار کا احترام کرتے ہیں۔

اگر واقعی جمہوریت کا مینار اپنی روشنی کھو رہا ہے تو پھر آپ کو یہ جان کر حیرت ہونی چاہیے کہ سنہ 2018 میں امریکہ میں تین لاکھ ساٹھ ہزار چینی طلبا تھے، جو چین میں امریکی طلبا کی تعداد سے 30 گنا زیادہ ہیں۔

چینی پروپیگنڈا کی کوشش ہے کہ وائرس کے خاتمے کو اس کے نظام کے فوائد کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جائے۔

چین کے رہنماؤں کو علم ہے کہ کچھ جمہوری ممالک جیسے کہ جاپان، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا نے کامیابی سے وائرس پر قابو پا لیا ہے۔

یہاں تک کہ ان لوگوں کے لیے جو سنجیدگی سے جدوجہد کر رہے ہیں، کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اب بھی آزاد معاشروں میں سیکھنے، ڈھالنے اور درست کرنے کی صلاحیت کے بارے میں امید کی کوئی وجہ باقی ہے۔

اور جبکہ ایک وبا کو قابو کرنے میں فرد کے حقوق کا تحفظ بہت مشکل ہے، ایک نظام جہاں لوگوں کو ’ان کے گھروں میں ہتھکڑی لگا دی جائے‘ ممکن نہیں کہ صحت کا نظام بہترین ہو سکے۔

چنانچہ چین کا یہ یقین کہ وائرس ’کثیر قطبی‘ دنیا کی آمد میں جلدی کرنے میں مدد فراہم کررہا ہے، جس میں آمرانہ اصولوں کو جمہوری اصولوں کے برابر اہیمت دی جائے جائے، تاریخی پیشگوئی سے زیادہ خواہش مند سوچ ہو سکتی ہے۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ایک ایسا امریکی صدر جو لبرل ورلڈ آرڈر پر اپنے یقین کی تصدیق کرتا ہے وہ مختصر مدت میں چین کے لیے کہیں بہتر ثابت ہو سکتا ہے۔

جو بائیڈن چین پر انسانی حقوق کے لیے زور دینے کا وعدہ کر سکتے ہیں اور ان کا چینی صدر کو ’بدمعاش‘ کہنا اس بات کی علامت ہے کہ واشنگٹن میں اتفاق رائے کس حد تک منتقل ہوا ہے۔

لیکن وہ ٹیرف کے معاملے میں نرمی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی جیسے معاملات پر تعاون پر رضامند ہو سکتے ہیں، جسے چین ممکنہ طور پر اپنے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔

اگرچہ چین کے حکمران انتخابی سائیکل کے معاملے پر نہیں سوچ رہے لیکن وہ ایک عہد کے خاتمے پر غور کر رہے ہیں۔

اور ایک امریکہ جو اپنے آپ کو عالمی اقدار کا چیمپیئن کہنے پر زور ڈالتا ہے، یہ وہی ہے جس کا انھیں سب سے زیادہ خوف ہے۔