امریکہ طالبان معاہدہ: بین الافغان مذاکرات کی راہ میں حائل طالبان قیدی کون ہیں؟

،تصویر کا ذریعہEPA
- مصنف, عزیز اللہ خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، پشاور
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے شدہ امن معاہدے کے تحت بین الافغان مذاکرات اب تک شروع نہیں ہو سکے ہیں اور اس کی وجہ چند طالبان قیدیوں کی رہائی بتائی جا رہی ہے۔ بیشتر طالبان قیدی تو رہا ہو چکے ہیں تو پھر یہ اہم قیدی آخر کون ہیں جن پر فرانس اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے تحفظات ہیں، اور جو مذاکرات میں ڈیڈ لاک کا باعث بنے ہوئے ہیں۔
افغان طالبان کے اہم ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ بڑی تعداد میں طالبان قیدیوں کو رہا کر دیا گیا ہے اور اب کچھ ہی قیدی باقی بچے ہیں جن کی رہائی پر افغان حکومت کے علاوہ کچھ دیگر یورپی ممالک کو بھی اعتراضات ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ افغان طالبان سے کہا گیا ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات شروع کردیں اور باقی ماندہ قیدی نومبر کے پہلے ہفتے یا نومبر کے آخر تک رہا کر دیے جائیں گے لیکن افغان طالبان نے اس سے انکار کیا ہے۔
افغان طالبان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے تمام قیدی رہا نہیں کر دیے جاتے تب تک بین الافغان مذاکرات شروع نہیں ہو سکتے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
افغان طالبان نے امریکہ کے ساتھ امن معاہدے کے لیے اپنے 5000 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا جبکہ طالبان نے افغان حکومت کے 1000 ایسے اہلکار رہا کرنے کا وعدہ کیا تھا جو ان کی تحویل میں تھے۔ طالبان نے افغان حکومت کے 1000 قیدیوں کو رہا کر دیا ہے جبکہ افغان حکومت اب تک 4680 طالبان قیدی رہا کر چکی ہے۔
ذرائع کے مطابق اب صرف 320 قیدی باقی رہ گئے ہیں جن کی رہائی عمل میں لانا باقی ہے۔
ایک طالبان رہنما سے جب یہ پوچھا کہ یہ قیدی کون ہیں جن پر اعتراض کیا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ان میں کچھ ایسے طالبان قیدی ہیں جو دیگر ممالک کے ان اہلکاروں پر حملوں کے الزام میں گرفتار ہیں جو فوجی وردیوں میں ملبوس تھے۔
طالبان ذرائع کا کہنا تھا کہ بہت جلد حالات بہتر ہوں گے، مذاکرات کی راہ ہموار ہو جائے گی اور اس سلسلے میں مختلف ممالک کے اعلیٰ عہدیداروں سے بات چیت ہو رہی ہے۔

،تصویر کا ذریعہWakil Kohsar
افغان طالبان قیدی کون ہیں؟
اگرچہ ان تمام باقی ماندہ قیدیوں کے نام تو نہیں مل سکے لیکن چند ایسے قیدیوں کا علم ہوا ہے جن کے بارے میں آسٹریلیا اور فرانس کی حکومتوں نے بھی اعتراضات کیے ہیں۔ ان قیدیوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ بڑے جرائم میں ملوث رہے اور یورپی ممالک کے اہلکاروں کے قتل میں بھی ملوث تھے۔
ان قیدیوں میں ایک حکمت اللہ ہیں جو افغان نیشنل آرمی کے اہلکار تھے۔ ان پر 2011 میں افغانستان کے اوروزگان صوبے میں آسٹریلیا کے تین فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔
حکمت اللہ پر الزام ہے کہ فوجیوں پر حملے کے بعد وہ افغان نیشنل آرمی کی گاڑی میں فرار ہوئے اور پھر سال 2011 کے آخر میں طالبان کے ساتھ مل گئے تھے۔
دوسرے قیدی عبدالصبور ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی افغان آرمی کے اہلکار تھے اور ان پر الزام ہے کہ انھوں نے کپیسا صوبے کے شہر تگاب میں فرانس کے پانچ فوجیوں کو ہلاک اور 13 کو زخمی کر دیا تھا۔ یہ واقعہ 2012 میں پیش آیا تھا۔ عبدالصبور کابل کے ضلع موساہی سے تعلق رکھتے ہیں۔
اس کے علاوہ ایک قیدی کا نام داؤد اور دوسرے کا سید رسول بتایا گیا ہے۔ یہ دونوں فوجی بھی بڑے واقعات میں ملوث بتائے گئے ہیں۔ افغان طالبان نے کل 5000 قیدیوں کی فہرست دی تھی اور ساتھ میں ایک کمیشن بھی بھیجا تھا جس کا کام ان قیدیوں کی نشاندہی کرنا تھا تاکہ اصل قیدیوں کو رہا کیا جا سکے ۔

،تصویر کا ذریعہReuters
’لویہ جرگہ نے قیدیوں کی رہائی کا کہا تھا‘
افغان حکومت نے ان 400 افغان طالبان قیدیوں کی رہائی کے لیے لویہ جرگہ طلب کیا تھا جس میں اس پر تفصیل سے بات چیت ہوئی تھی۔
افغان حکومت نے لویہ جرگہ میں کہا تھا کہ یہ قیدی بڑے جرائم میں ملوث ہیں اور لویہ جرگہ میں منظوری کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے اگست کے دوسرے ہفتے میں ان کی رہائی کا حکم جاری کر دیا تھا۔
اس سلسلے میں 400 قیدیوں میں سے 80 قیدی رہا بھی کر دیے گئے تھے لیکن پھر اچانک باقی قیدیوں کی رہائی روک دی گئی تھی۔
اس بارے میں افغان حکومت کا موقف یہ تھا کہ چند ایک دوست ممالک نے ان قیدیوں کی رہائی پر اعتراض کیا ہے جس وجہ سے معاملہ طول اختیار کر گیا ہے۔ ان ممالک میں اب تک آسٹریلیا اور فرانس کے نام سامنے آئے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
افغان طالبان کا موقف
اس بارے میں قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان 5000 قیدیوں کی فہرست انھوں نے کوئی سات آٹھ ماہ پہلے دی تھی اور 29 فروری 2020 کو دوحہ میں معاہدے پر دستخط ہوئے تو ان سب نے یہ فہرست دیکھی تھی اور اس کا جائزہ لیا تھا اور اس وقت اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوئی تھی لیکن اب اتنے دنوں بعد یہ بات کرنا اس معاہدے کو معطل کرنا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’غیر ملکی افواج افغانستان آئی تھیں تو کیا یہ یہاں حلوہ تقسیم کرنے آئے تھے یا گل پاشی کرنے آئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ان غیر ملکی فوجیوں نے یہاں بڑی تعداد میں سویلینز کو مارا اور لوگوں کے مکانات تباہ کیے اور بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے اور افغانستان پر قبضہ کیے رکھا ہے کیونکہ یہ تو ایک جھگڑا تھا، ایک جنگ تھی اور اس میں دونوں طرف نقصان ہوا ہے۔‘
سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ حکومت ان کے قیدی اور طالبان، افغان حکومت کے قیدی رہا کریں گے اور انھوں نے اس طرح کی کوئی شرائط عائد نہیں کی تھیں کہ کس قیدی نے پہلے کیا کیا تھا اور آگے کیا کریں گے بلکہ افغان حکومت کے اہلکاروں کو بغیر کسی شرط کے رہا کر دیا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس معاہدے پر عمل درآمد سے بہانے تلاش کیے جا رہے ہیں۔
معاہدے کے بنیادی نکات
قطر کے شہر دوحہ میں 29 فروری کو جس معاہدے پر دستخط کیے گئے اس کے تحت امریکہ 10 مارچ سے اپنے فوجیوں کا انخلا شروع کرے گا اور افغانستان میں پانچ امریکی فوجی اڈے بند کرے گا۔
افغان طالبان کے 5000 قیدی رہا کیے جائیں گے اور طالبان کی تحویل میں موجود 1000 افغان شہریوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ اس دوران بین الافغان مذاکرات شروع کیے جائیں گے اور یہ سارا عمل 14 ماہ میں مکمل کیا جائے گا۔
اس معاہدے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین امریکہ سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور یہ کہ طالبان، افغانستان میں موجود القاعدہ اور داعش کی سرگرمیوں کو روکیں گے۔
مبصرین اب اس ساری صورتحال میں افغان حکومت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور ایسا تاثر ابھر رہا ہے کہ افغان حکومت اس معاہدے پر عملدرآمد میں تاخیری حربے استعمال کر رہی ہے یا شاید قانونی پیچیدگیاں ان کی راہ میں حائل ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ افغان حکومت اس وقت افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کو ساتھ لے کر چلنے کے لیے ان کی آمادگی کا انتظار کر رہی ہے۔










