ٹک ٹاک پر امریکی پابندی: چینی ویڈیو کمپنی صدر ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کو عدالت میں چیلنج کرے گا

،تصویر کا ذریعہGetty Images
چینی ویڈیو ایپ ٹک ٹاک امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے خود پر عائد کی گئی پابندیوں کے خلاف قانونی ایکشن کو لینے کی تیاری کر رہی ہے۔
صدر ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے کے تحت رواں برس ستمبر کے وسط سے ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ لین دین پر پابندی عائد ہو جائے گی۔
واشنگٹن میں حکام کو خدشہ ہے کہ کمپنی امریکی صارفین کے بارے میں ڈیٹا چینی حکومت کو فراہم کر سکتی ہے تاہم بائٹ ڈانس نے اس سے انکار کیا ہے۔
مختصر ویڈیوز کی اس ایپ کے صرف امریکہ میں ہی آٹھ کروڑ فعال صارفین موجود ہیں۔
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس نے صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کے ساتھ تقریباً ایک سال تک مذاکرات کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کے ساتھ منصفانہ مرحلہ نہیں اپنایا گیا اور ان کا سامنا ایک ایسی انتظامیہ سے ہوا جو 'حقائق کو چنداں توجہ' نہیں دیتی۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
کمپنی کے ایک ترجمان کے مطابق: 'کمپنی کے پاس عدالتی نظام کے ذریعے اس انتظامی حکم نامے کو چیلنج کرنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے تاکہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکے اور ہماری کمپنی اور ہمارے صارفین کے ساتھ منصفانہ معاملات رہیں۔
بی بی سی کی بزنس رپورٹر ویویئن نونِس کے مطابق ٹک ٹاک کو امید ہے کہ قانونی ایکشن رواں ہفتے شروع ہو گا۔
جمعے کو چینی امریکیوں کے ایک گروپ نے صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی کمپنی ٹین سینٹ کی سوشل میڈیا ایپ وی چیٹ پر عائد کی گئی ایسی ہی پابندیوں کے خلاف ایک علیحدہ درخواست دائر کی ہے۔
ٹک ٹاک کے صارفین اس پلیٹ فارم پر مختصر دورانیے کی ویڈیوز پوسٹ کرتے ہیں جو ڈانس سے لے کر بین الاقوامی سیاست تک کسی بھی موضوع پر ہو سکتی ہیں۔
حالیہ مہینوں میں اس کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور بالخصوص یہ ٹین ایجرز میں نہایت مقبول ہے۔
اسے دنیا بھر میں اب تک ایک ارب سے زائد لوگ ڈاؤن لوڈ کر چکے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مگر صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ چین اس ایپ کو استعمال کر کے وفاقی ملازمین کی لوکیشنز معلوم کرنے، بلیک میلنگ کے لیے معلومات اکٹھی کرنے، اور کمپنیوں کی جاسوسی کرنے کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ چینی کمپنیوں کی جانب سے تیار کی گئی اور ان کی ملکیت موبائل ایپس سے 'امریکہ کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور معیشت کو خطرہ ہے۔'
انھوں نے اپنے انتظامی حکمنامے میں دعویٰ کیا کہ 'اس ڈیٹا کلیکشن سے چین کی کمیونسٹ پارٹی کو امریکیوں کی ذاتی اور کاروباری معلومات تک رسائی ملنے کا خدشہ ہے۔'
ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اس نے کسی بھی امریکی صارف کا ڈیٹا چینی حکام کے حوالے نہیں کیا ہے۔
وی چیٹ اور ٹک ٹاک کے خلاف صدر ٹرمپ کے اقدامات نومبر میں امریکی صدارتی انتخاب سے قبل چین کے خلاف تیز ہوتی ہوئی مہم کا حصہ ہیں۔
دفتر سنبھالنے سے لے کر اب تک وہ چین کے خلاف تجارتی جنگ کو بڑھائے جا رہے ہیں۔
تاہم واضح رہے کہ امریکہ ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے والا واحد ملک نہیں ہے بلکہ انڈیا میں بھی اس پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور آسٹریلیا بھی ایکشن لینے پر غور کر رہا ہے۔
وی چیٹ ان صارفین میں بہت مقبول ہے جن کے چین کے ساتھ روابط ہیں کیونکہ وہاں واٹس ایپ اور فیس بک جیسی بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں پر پابندی عائد ہے۔
اسے چین کے داخلی جاسوسی نظام کا بھی ایک اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے اور جن شہریوں پر نقصاندہ افواہیں پھیلانے کا الزام ہو، انھیں اپنے چہرے کا سکین اور آواز کی ریکارڈنگ جمع کروانے کے لیے کہا جاتا ہے۔













