ٹک ٹاک پر امریکہ میں پابندی: ایک چھوٹی سی سوشل میڈیا ایپ کا ’بڑا معرکہ‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, جو ٹائیڈی اور صوفیا سمتھ
- عہدہ, بی بی سی نیوز
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیوو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت اب ٹک ٹاک کی مالک کمپنی بائٹ ڈانس کے ساتھ کسی قسم کی لین دین پر پابندی ہوگی۔
اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ امریکہ کو قومی سلامتی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مالکان کے خلاف جارحانہ کارروائی کرنا ہوگی۔
ٹک ٹاک ان الزامات کی تردید کرتا ہے کہ اس کے ڈیٹا پر چینی حکومت کا کنٹرول ہے یا اس تک چینی حکومت کو رسائی حاصل ہے۔
اس پیش رفت کے بعد جمعرات کی شب صدر ٹرمپ نے ایک اور آرڈر بھی منظور کیا ہے جس میں چینی کمپنی ٹنسنٹ کی ایپ وی چیٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی ہے۔
ٹک ٹاک اور وی چیٹ دونوں نے اب تک اس حوالے سے اپنا ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایسا کیوں کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ٹک ٹاک اس قدر مقبول کیوں ہے اور اس ایپ کی کہانی کیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ایک چھوٹی سی سوشل میڈیا ایپ کا بڑا معرکہ
بڑی تقریبات جہاں ایک شخص سٹیج پر پرفارم کر رہا ہوتا ہے اور مجمع اس کے گانوں سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے، ایسی تقریبات میں غیر معمولی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
لیکن ٹک ٹاک کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے کوئی زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا۔ یہ کروڑوں کے بجٹ کے بجائے اپنا کام صرف 15 سیکنڈ میں مکمل کر لیتی ہے۔
دسمبر 2018 میں سامنے آنے کے بعد اس ایپ نے کروڑوں صارفین کو اپنی جانب متوجہ کیا ہے لیکن اس سب سے اہم بات یہ ہے کہ اسے سوشل نیٹ ورکس پر بھی خوب پذیرائی ملی۔
دنیا نے اس ایپ کی طرف توجہ مبذول کر لی اور ٹک ٹاک اُس وقت سے کروڑوں پرجوش، تخلیقی اور نوجوان صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئی۔

،تصویر کا ذریعہTikTok/@davidkasprak
ٹک ٹاک کا آغاز ’ایک دفعہ کا ذکر ہے۔۔۔‘ سے شروع ہونے والی کہانیوں سے مختلف ہے جو ہم اس سے پہلے بھی سن چکے ہیں۔
یہ کہانی تین ایپس سے شروع ہوتی ہے۔
پہلی ایپ میوزیکل ڈاٹ لی (Musical.ly) ہے جس کا آغاز سنہ 2014 میں شنگھائی سے کیا گیا۔ اس ایپ میں امریکی کاروباروں کا بھی گہرا تعلق تھا اور مارکیٹ میں اس کے صارفین کی بھی بڑی تعداد تھی۔
سنہ 2016 میں چینی ٹیکنالوجی ایپ بائٹ ڈانس نے چین میں اسی طرح کی ایک سروس 'ڈوئین‘ شروع کی تھی۔ اس نے ایک سال کے عرصے میں چین اور تھائی لینڈ میں 100 ملین صارفین کو اپنی طرف راغب کیا۔
بائٹ ڈانس نے ایک فیصلہ کیا اور یہ ٹک ٹاک نامی ایک مختلف برانڈ کے ساتھ اپنے دائرہ کار کو بڑھانا چاہتی ہے۔
سنہ 2018 میں اس نے میوزیکل ڈاٹ لی کو بھی خرید کر اپنا حصہ بنا لیا اور یوں ٹک ٹاک کی عالمی سطح تک دائرہ بڑھانا شروع کر دیا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Google YouTube کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Google YouTube ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
YouTube پوسٹ کا اختتام
ٹک ٹاک کی کامیابی کا راز میوزک کے استعمال اور ایک غیر معمولی طاقتور الگورتھم میں ہے، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صارفین کون سا مواد استعمال کرنے والی دوسری ایپس سے کہیں زیادہ تیزی سے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ صارفین گانوں، فلٹرز، اور فلموں کے کلپس کی ایک بہت بڑی ڈیٹا بیس میں سے اپنی پسند کی آوازیں بھی چن سکتے ہیں۔
اس ایپ کی وجہ سے کچھ بہت مقبول ٹرینڈ سامنے آئے ہیں اور یہاں تک کہ بی بی سی نیوز کا تھیم میوزک بھی وائرل ہو گیا جب صارفین نے ہماری کورونا وائرس کی بریفنگز کا مذاق اڑایا۔
بہت سے لوگ ’فور یو‘ یا ’آپ کے لیے‘ نامی صفحے پر زیادہ وقت گزاریں گے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ وہ اس مواد کی نسبت جو پہلے دیکھ رہے تھے اس مواد سے زیادہ محظوظ ہوں گے۔
یہ ایسا مواد دِکھاتا ہے جس کے بارے میں اسے لگتا ہے کہ وہ وائرل ہو سکتا ہے۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہے کہ اگر مواد اچھا ہے تو وہ آگے جائے گا قطع نظر اس سے کہ بنانے والے کی فالورز کی تعداد کتنی ہے۔
بہت سوں کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک سے سوشل میڈیا صارفین کا ایک نیا گروہ سامنے آیا ہے جو کسی قسم کے مواد کو دیکھ کر محظوظ ہوتا ہے۔
کمیونٹیز مثلاً "Alt" or "Deep" میں اکثر ایسے فیچر بنانے والے ہوتے ہیں جو فقط اپنی جیب بھرنے کے یلے کام نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے مزاحیہ یا پھر معلوماتی مواد تیار کرتے ہیں۔ ان کے لیے اس کا مقصد بڑے برینڈ کی توجہ حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کا مقصد ایک جیسے خیالات کے لوگوں کی تلاش ہوتی ہے۔
ٹک ٹاک اور اس کی ایپ ڈوئن (Douyin) بہت تیزی سے پھیلی ہیں۔

گذشتہ برس جولائی ان ایپس کے دنیا بھر میں ایک ارب ڈاؤن لوڈز تھے۔ ان میں سے 500 ملین یعنی نصف ایکٹو یوزرز تھے۔ ایک سال کے اندر ہی یہ دو ارب ڈاؤن لوڈز تک پہنچی اور ایکٹو یوزرز کی تعداد 800 ملین ہو گئی۔
اس کی اتنی تیزی سے بڑھنے کی وجہ سے اس نے سیاست دانوں کی توجہ مبذول کی۔ اس کا کیا مطلب ہے کہ ایک چینی ایپ اتنی تیزی سے دنیا بھر میں مقبول ہو جائے؟
اگرچہ الزامات قدرے مبہم ہیں، مگر انڈئا اور امریکہ نے کہا ہے کہ ٹک ٹاک صارفین کے بارے میں حساس ڈیٹا جمع کر رہی ہے جو کہ چینی حکومت استعمال کر سکتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہر بڑی چینی کمپنی میں ایک سیل ہوتا ہے جو کہ چینی حکومت کو جوابدہ ہوتا ہے۔ انڈیا نے ابتدائی طور پر اپریل 2019 میں ٹک ٹاک پر پابندی لگائی تھی۔ اس وقت ایک عدالت نے حکم دیا تھا کہ اسے ایپ سٹور سے ہٹایا جائے کیونکہ یہ بے حیائی کو فروغ دیتی ہے۔
جون 2020 میں انڈین حکومت نے پھر ٹک ٹاک پر پابندی لگائی اور متعدد اور کئی چینی ایپس پر بھی پابندی لگائی۔ اس دفعہ وجہ یہ تھی کہ ان ایپس پر الزام تھا کہ وہ صارفین کا حساس ڈیٹا جمع کرتی ہیں۔
امریکی حکومت نے 2019 کے آخر میں اس پلیٹ فارم کا نیشنل سیکیورٹی ریوو شروع کیا تھا جب دونوں ڈیموکرٹک اور ریپبلکن رہنماؤں کا خیال تھا کہ اس سے خطرہ ہو سکتا ہے۔
حال ہی میں امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے دعوی کیا تھا کہ ٹک ٹاک ان ایپس میں سے ایک ہے جو کہ براہِ راست چینی حکومت کو معلومات فراہم کرتی ہے۔
برطانیہ کے انفارمیشن کمشنر کے دفتر اور آسٹریلوی انٹیلیجنس ایجنسی بھی اس ایپ کی تفتیش کر رہی ہیں تاہم انھوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا کہ وہ کس چیز کی تلاش میں ہیں۔
ظاہر ہے کہ ان ممالک اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ امریکہ چین کے ساتھ تجارتی جنگ کر رہا ہے، انڈیا اور چین کی سرحد پر جھڑپیں ہوئی ہیں اور برطانیہ ہانگ کانگ میں نئے سیکیورٹی قوانین پر ناراض ہے۔
ٹک ٹاک اپنے ڈیٹا کے ساتھ کیا کرتی ہے، اس پر سوالیہ نشان ہے۔
اس کی پرائویسی پالیسی سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ وہ بہت سی معلومات اکھٹی کرتے ہیں جس میں مندرجہ ذیل شامل ہیں:
- کون سی ویڈئوز دیکھی جاتی ہیں اور کون سی ویڈیوز پر کومنٹ کیے جا رہے ہیں
- لوکیشن ڈیٹا
- فون کا ماڈل نمبر اور آپریٹنگ سسٹم
- لوگوں کے ٹائپنگ کرتے ہوئے کون سے رجحان ہوتے ہیں
اس سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ یہ ایپ لوگوں کے کاپی پیسٹ والے کلپ بورڈ کا بھی جائزہ لیتی ہے مگر ایسا متعدد اور ایپس جن میں ریڈٹ، لنکڈ ان، اور بی بی سی نیوز کی ایپ بھی شامل ہیں اور اس میں کوئی غلط عنصر نہیں پایا گیا۔
زیادہ تر شواہد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ٹک ٹاک بھی معلومات ایسے ہی جمع کرتی ہے جیسے کہ دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارم جیسے کہ فیس بک۔
مزید پڑھیے
تاہم امریکی کمپنیوں کے برعکس ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ وہ کہیں زیادہ شفافیت اور اپنے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے تیار ہے تاکہ لوگوں کے اس حوالے سے خدشات کو دور کیا جا سکے۔
ٹک ٹاک کے نئے چیف ایگزیکٹیو کیون مائر امریکی ہیں اور وہ ڈزنی کے سابق ملازم بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ماہرین کو اجازت دیں گے کہ وہ ایپ کے ایلگورتمز کا جائزہ لے لیں۔ ایک ایسی صنعت جہاں کوڈ اور ڈیٹا کی حفاظت کی جاتی ہے، یہ ایک بہت بڑا قدم ہے۔
تاہم خدشات صرف ڈیٹا کے بارے میں نہیں ہیں بلکہ یہ ہیں کہ کہیں چینی حکومت اس کمپنی کو کبھی مجبور کر سکتی ہے کہ ڈیٹا حکام کو دے دیا جائے۔
ایسے ہی خدشات ہواوے کے بارے میں بھی ظاہر کیے گئے ہیں۔
چین میں نیشنل سیکیورٹی کا 2017 کا قانون کہتا ہے کہ کسی بھی کمپنی یا فرد کو قومی انٹیلیجنس کے کاموں میں مدد کرنا ہوگی۔
تاہم ٹک ٹاک اور ہواوے دونوں کی قیادت کہہ چکی ہے کہ اگر ایسا ہوا تو وہ چینی حکومت کو ڈیٹا دینے سے انکار کریں گے۔
دیگر خدشات یہ بھی ہیں کہ ان ایپس کے ذریعے رائے عامہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جائے یا سینسر شپ کو عمل میں لایا جائے۔
ٹک ٹاک ان پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے جہاں نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کرنے آتے ہیں۔ گذشتہ سال مئی میں اس ایپ نے بلیک لائیوز میٹر کی تشہیر کی تھی۔ مگر پھر بھی جہاں اس ہیش ٹیک کو ارب ویوز مل رہے تھے، ناقدین کا کہنا تھا کہ سیاہ فام افراد کی آواز کو دبایا جا رہا تھا اور مظاہروں سے منسلک ہیش ٹیگز کو چھپایا جا رہا تھا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب ٹک ٹاک کے ایلگورتم پر تنقید کی جا رہی ہے۔ خبر رساں ادارے فی انٹرسیپٹ کی ایک رپورٹ میں پتا چلا تھا کہ موڈریٹرز سے کہا گیا کہ ایسی مواد کو کم ترجیح دی جائے جس میں لوگ بدشکل ہوں یا زیادہ غریب معلوم ہوں۔
اسی طرح گذشتہ سال گارڈیئن کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹک ٹاک نے سیاسی نوعیت کے مواف کو سینسر کیا جس میں ٹیانمن سکور یا ٹیبٹ میں آزادی کے مطالبے شامل ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس کے علاوہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ چین میں بیٹھے موڈریٹرز کے پاس حتمی فیصلہ ہوتا ہے کون یا مواد منظور ہوگا۔ بائٹ ڈانس کا کہنا ہے کہ ایسے تمام اقدامات ختم کر دیے گئے ہیں اور اب تمام موڈریٹر بیجنگ سے آزاد ہیں۔
مائیکروسافٹ کے ٹک ٹاک کے امریکی آپریشنز خریدنے کے بارے میں بات چیت سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کئی سالوں میں یہ اہم ترین ٹیکنالوجی پلیٹ فارم ہے۔
ٹک ٹاک 25 سال سے کم عمر لوگوں کے لیے اہم ترین پلیٹ فارم بن کی ابھرا ہے جبکہ ٹوئٹر اور انسٹاگرام کو عموماً بڑی عمر کے لوگوں میں زیادہ مقبول سمجھا جاتا ہے۔
مگر ان لوگوں کے لیے جو کہ ٹک ٹاک کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں، ٹک ٹاک پر پابندی انھیں ایک نقصان لگتا ہے۔
اس پابندی کے پیشِ نظر ٹک ٹاک کے مقابلے میں کھڑی دوسری ایپس جیسے کہ بائٹ یا ٹریلر کی ڈاؤن لوڈز میں تیزی آگئی ہے۔













