کورونا وائرس: سفری بحران اور پابندیاں مسافر طیاروں کو ’جہازوں کے قبرستان‘ میں کیسے منتقل کر رہی ہیں؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سوتک بسواس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
کووڈ 19 کی وجہ سے فضائی سفر میں واضح کمی سے متاثرہ کئی تجارتی ایئر لائنز نے اپنے طیاروں کے بیڑے نظروں سے اوجھل دور دراز مقامات پر کھڑے کر دیے ہیں۔
گذشتہ مہینے آسٹریلیا کی ایئر لائن ’کانٹس‘ نے اپنے آخری بوئنگ 747 طیارے کو الوداع کیا اور آخری پرواز میں اسے سڈنی سے کیلیفورنیا کے ایک صحرا تک ریٹائرمنٹ کے لیے بھیج دیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق سنہ 1984 سے لے کر اب تک اس فضائی بیڑے پر تقریباً 250 ملین سے زیادہ افراد نے سفر کیا تھا، جن میں ملکہ الزبتھ دوم اور آسٹریلیا کی اولمپک ٹیم بھی شامل ہے۔
ایئر لائن کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے اے 380 سپر جمبو طیاروں کے بیڑے کو کم از کم سنہ 2023 تک اس صحرا میں میسر ایک مقام پر محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
کانٹس کا کہنا ہے کہ انھوں نے طیارے کو چھ ماہ میں ریٹائر کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس تاریخ کو آگے لایا گیا کیونکہ کورونا وائرس کے وبائی مرض کے باعث ’عالمی سطح پر بین الاقوامی سفر پر تباہ کن اثرات‘ مرتب ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس وبائی مرض نے بڑی تعداد میں تجارتی ہوائی کمپنیوں کو اپنے فضائی بیڑے دور دراز، بنجر صحراؤں میں کھڑے کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
ان جگہوں کو ایئرلائن ’بونیئرڈ‘ (قبرستان) یا ریٹائرمنٹ کی سہولیات کہا جاتا ہے۔ یہاں طیارے یا تو کھڑے رہتے ہیں یا انھیں لمبے عرصے کے لیے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اور پھر ضرورت کے مطابق خدمات کے لیے واپس لایا جاتا ہے یا ان کے پرزے فروخت کرنے کے لیے انھیں توڑا جاتا ہے۔
تجارتی ایئر لائنز کے لیے ان کے ہوائی اڈوں کے مقابلے میں ایسی سٹوریج کی سہولیات یا بونیئرڈ پر جہاز کھڑے کرنا سستا پڑتا ہے۔
ہوائی جہاز طویل عرصے تک ان مقامات پر محفوظ کیے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک ہوائی جہاز کو ’طویل مدتی سٹوریج پروگرام‘ میں رکھنے کے لیے عام طور پر ایئر لائنز کو ماہانہ 5000 ڈالر (3882 پاؤنڈز) رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔
پروازوں کے متعلق معلومات دینے والی ویب سائٹ ’فلائٹ ریڈار 24‘ کے ایان پیٹچینک بتاتے ہیں کہ ’نئے معاہدے سے قبل کچھ طیارے ایک طویل عرصے کے لیے محفوظ رکھے جاتے ہیں، کچھ کو محفوظ کیا جاتا ہے اور پھر ان کے حصوں کا استعمال کیا جاتا ہے جبکہ کچھ کو سکریپ یا مکمل طور پر ختم کر دیا جاتا ہے۔‘
نجی طور پر چلنے والی بونیئرڈ کی زیادہ مشہور سہولیات امریکہ، سپین اور آسٹریلیا جیسے ممالک کے ویران صحرائی علاقوں میں واقع ہیں۔
مثال کے طور پر وسطی آسٹریلیا میں ایلس سپرنگس اور مشرقی کیلیفورنیا میں موجاوی دو معروف مقامات ہیں۔ طیارے محفوظ کرنے کے دوسرے مشہور مقامات ایریزونا میں مارانا اور نیو میکسیکو میں روز ویل میں واقع ہیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
مسٹر پیٹچینک کا کہنا ہے کہ ’صحرا میں دو اہم خصوصیات ہوتی ہیں: کھلی اراضی اور آب و ہوا جو دھات کے حصوں کی تحلیل کی رفتار کو سست کر دیتی ہے۔‘
’ان علاقوں میں کم ایرروسول (کِسی گيس ميں ٹھوس يا مائع ذرات کی موجودگی) اور ہوا کے جزو کے ساتھ کم نمی کی مقدار، طویل عرصے تک ہوائی جہازوں کو محفوظ کرنے میں مددگار ہے۔
امریکی مصنف اور نیو یارک ٹائمز کے سابق کالم نگار جو شارکی، ایریزونا میں ٹکسن سے 15 میل شمال میں واقع صحرا، مارانا میں سی آئی اے کی سابق ایئربیس جسے کمرشل ایئر پارک میں تبدیل کر دیا گیا ہے، وہاں سے کیا گیا سفر یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’یہ تشویش کا باعث ہے کہ کئی کمرشل جہازوں کو آپ ایک فاصلے سے چمکتا دیکھ سکتے ہیں۔ تمام پروازوں کی کھڑکیاں اور انجن بند پڑے ہیں۔‘
ایوی ایشن کے ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی وبا کی وجہ سے حالیہ تاریخ کے دیگر واقعات کے مقابلے زیادہ جہاز ان ’قبرستانوں‘ میں گئے ہیں۔ لمبی اڑان بھرنے والے جہازوں کو بھی وقت سے پہلے ریٹائر کیا جا رہا ہے۔
گذشتہ ہفتے دنیا میں بڑے طیاروں کی سب سے بڑی ایئر لائن ’برٹش ایئر ویز‘ نے اعلان کیا کہ وہ اپنے 31 بوئنگ 747، جو اس کے ہوائی بیڑے کا 10 فیصد حصہ بنتا ہے، قبل از وقت ریٹائر کر رہے ہیں۔ انھیں سنہ 2024 میں ریٹائر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔
لندن کی ایوی ایشن کمپنی ’سریئم‘ کے مطابق اپریل میں دنیا بھر میں مجموعی ہوائی بیڑے کے دو تہائی یعنی 14 ہزار مسافر طیارے گراؤنڈ کیے گئے۔ سال کے آغاز میں یہ تعداد محض 1900 طیاروں پر مشتمل تھی۔
بین الاقوامی ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن کے مطابق قریب 75 لاکھ پروازیں جنوری سے جولائی کے درمیان معطل ہوئیں۔ اس طرح اس صنعت کو 86 ارب ڈالر کی آمدن کے بجائے نقصان ہوا۔
سریئم میں کنسلٹینسی کے سربراہ راب موریس نے ایک ای میل میں بتایا کہ ’یہ کمرشل پروازوں کو گراؤنڈ کرنے کا سب سے بڑا سلسلہ ہے۔ اس کی وجوہات مسافروں کے عالمی نیٹ ورک کی ورچوئل بندش ہے جس کی وجہ عالمی وبا کے باعث سفری پابندیاں ہیں اور ہوائی سفر کی طلب میں کمی ہے۔‘
ماضی میں کئی عالمی واقعات کی بدولت ایئر ٹریفک میں بڑی کمی واقع ہو چکی ہے۔

،تصویر کا ذریعہEPA
ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2001 میں نائن الیون کے حملوں اور خلیج کی جنگ کے بعد کمرشل پروازوں کے بیڑے میں سے 13 فیصد سے زیادہ کو گراؤنڈ کر دیا گیا تھا۔ مسافروں کی ایئر ٹریفک سنہ 2008 کے مالیاتی بحران کے دوران گِر گئی تھی۔ اُس وقت سنہ 2009 کے وسط کے دوران 11 فیصد کمرشل بیڑوں کو گراؤنڈ کر دیا گیا تھا۔
موریس کا کہنا ہے کہ ’لیکن ذخیرہ کرنے کا تناسب یعنی سنہ 2020 جتنا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اس سے عالمی ایئر لائنز کے بحران کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔‘
ایریزونا میں ڈیلٹا ایئرلائنز نے اپنا بیڑہ ایک ایسے ہی ’قبرستان‘ میں پارک کر دیا ہے۔ اور امریکن ایئر لائنز نے اپنے طیاروں کو نیو میکسیکو میں ایک سابقہ فوجی اڈے، جسے اب سٹوریج کی جگہ میں تبدیل کر دیا ہے، میں محفوظ کھڑا کر دیا ہے۔
گذشتہ مارچ جب حفاظتی خدشات سامنے آئے تھے تب دنیا بھر میں سے اکثر 371 بوئنگ 737 میکس طیاروں کو سٹوریج کی جگہوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
سنگاپور ایئر لائنز کے ایک ترجمان نے بتایا کہ انھوں نے آسٹریلیا میں ایلس سپرینگ کے مقام پر اپنے 29 طیارے پارک کر دیے ہیں۔ ایئر بس 380 کے بارے میں تاثر ہے کہ یہ سب سے متاثرہ بیڑوں میں سے ایک ہے۔
ایان پیٹچینک کا کہنا تھا کہ ’اے 380 کی بیڑے کو طویل مدت تک سٹوریج میں رکھا جائے گا کیونکہ مسافروں کی جانب سے طلب میں بے مثال کمی واقع ہوئی ہے۔‘
جس دوران عالمی وبا اپنے آٹھویں مہینے میں داخل ہو رہی ہے، کئی طیارے سروس پر لوٹ آئے ہیں کیونکہ ایئر لائنز کی پروازیں بحال ہو رہی ہیں۔
17 جولائی کو قریب 10 ہزار مسافر طیارے آسمان میں تھے اور کوئی 34800 پروازیں چل رہی تھیں۔
سریئم کے مطابق تقریباً 7600 طیارے، جو عالمی بیڑے کا ایک تہائی حصہ بنتا ہے، تاحال گراؤنڈ رکھے گئے ہیں۔
حالات کی سنجیدگی سمجھنے کے لیے اس کی مثال ایسے دیکھی جا سکتی ہے کہ سنگاپور ایئرلائنز، جو دنیا کی بڑی ایئر لائنز میں سے ہے، اپنے 220 طیاروں کے بیڑے میں سے صرف 30 طیارے اڑا رہی ہے۔ جبکہ اس کے مزید 30 مسافر طیاروں کو کارگو کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
سٹوریج میں رکھے گئے طیاروں کے مستقبل کے حوالے سے صورتحال تاحال غیر واضح ہے۔ کچھ طیاروں کو یہیں رکھا جائے گا۔ یہ آخری راستہ بھی موجود ہے کہ طیارے کو سکریپ کر دیا جائے اور اس کے پرزے بیچ دیے جائیں۔
موریس کا کہنا ہے کہ ’انجن میں کچھ قیمتی دھاتیں ہوتی ہیں جن کی کچھ قدر ہوتی ہے۔ لیکن کئی حالات میں آج سکریپ کیے گئے طیارے کی قیمت بہت کم ہے اگر اس کا موازنہ سکریپنگ کے خرچے سے کیا جائے، خاص کر کے اگر ماحولیات کے قوانین کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔‘
’اس لیے غیر فعال طیارے کو طویل مدت کے لیے سٹوریج میں رکھا جا سکتا ہے۔‘
ایان پیٹچینک کا کہنا ہے کہ ’ان طیاروں کی بحالی کے لیے ان کی مرمت اور کئی ٹیسٹ فلائٹس کی ضرورت ہوتی ہے۔ انجن اور سسٹم کو بار بار چلا کر دیکھا جاتا ہے تاکہ جلد از جلد ان کی اڑان بحال ہو سکے۔‘
اکثر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ’قبرستان‘ میں پڑے طیارے اب دوبارہ بحال نہیں کیے جائیں گے۔
شارکی ایریزونا میں ایک سینیئر مینیجر سے ملے اور ان سے ان کے تجربے کے بارے میں جاننا چاہا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایک 747 طیارہ کچھ عرصہ قبل یہاں آیا تھا اور اس میں اخبار اور میگزین ترتیب سے رکھے گئے تھے، سیٹوں پر تکیے اور کمبل بھی موجود تھے۔ یہ خوفناک منظر تھا، جیسے ایک آسیب دہ جہاز ہو۔‘












