آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
قیدیوں کی رہائی: افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع
افغان حکومت اور طالبان نے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ دوسری ملاقات سے قبل اس سلسلے میں ہونے والی ابتدائی ملاقات کی تفصیلات بدھ کو سامنے آئیں۔ یہ مذاکرات ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر افغان حکومت نے شہریوں کی نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
دوحہ میں امریکہ اور طالبان میں ہونے والے معاہدے کے تحت افغان حکومت طالبان کے 5000 قیدی رہا کرے گی جبکہ اس کے بدلے میں طالبان افغان سکیورٹی فورسز کے 1000 قیدی رہا کرے گا۔
ملک میں جاری پرتشدد کارروائیوں کے پس منظر میں یہ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ افغان حکام نے بدھ کو ملک کے جنوبی صوبے ہلمند میں ہونے والے بم دھماکے کی ذمہ داری طالبان پر عائد کی ہے جس میں آٹھ ہلاکتیں ہوئیں۔ مرنے والوں میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے۔
مذاکرات میں کیا پیش رفت ممکن ہو سکی ہے؟
امریکہ اور طالبان میں ہونے والے 29 فروری کے معاہدے کے تحت فریقین کی طرف سے قیدیوں کی رہائی مارچ کے آغاز سے ہونا تھی مگر اس کی راہ میں کئی رکاوٹیں آئیں۔ بدھ تک دونوں کی صرف ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ہی ملاقات ممکن ہو سکی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جب بدھ کو دوسرے دن یہ مذاکرات ہونے جارہے تھے تو افغان حکومت کی قومی سلامتی کمیٹی کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان ملاقاتوں میں ابھی تک تکنیکی پہلوؤں پر غور کیا گیا۔
یہ مذاکرات انٹرنیشل کمیٹی آف ریڈ کراس کی سربراہی میں ہو رہے ہیں۔ ریڈ کراس کے مطابق ان مذاکرات میں دونوں اطراف سے قیدیوں کی رہائی ہی مرکزی نکتہ تھا۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ان ملاقاقوں کا مقصد مذاکرات نہیں ہیں، ان میں سیاسی مذاکرات شامل نہیں ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے مذاکرات کے آغاز کو اہم پیشرفت قرار دیا ہے۔
افغان حکومت اور طالبان مذاکرات پر پاکستان کا ردعمل
دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان مذاکراتی ٹیم کی تشکیل کے بارے میں افغان قیادت کے حالیہ اعلان کا خیرمقدم کرتا ہے، جس سے افغان دھڑوں کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز کی راہ ہموار ہو گی۔
ترجمان کے مطابق پاکستان اسے ایک انتہائی اہم اقدام سمجھتا ہے، جو افغان قیادت کی طرف سے افغانستان میں امن اور مصالحت کو ترجیح دینے کے عزم کا اظہار ہے۔
انھوں نے کہا کہ امریکہ-طالبان امن معاہدے نے افغانستان میں پائیدار امن و استحکام کے قیام کا ایک تاریخی موقع فراہم کیا ہے، جس سے اختلافات کے خاتمے، الزام تراشی سے گریز اورملک کے بہترین مفاد میں متحد ہو کر تعمیری کام کرنے کے مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
افغانستان میں کورونا وائرس کی وبا کتنا بڑا خطرہ ہے؟
افغانستان میں اس وقت کووڈ-19 وائرس کے 200 مریض سامنے آ چکے ہیں۔ جن افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے ان کی اکثریت مغربی صوبے ہرات میں پائی جاتی ہے۔ ابھی تک اس وائرس سے چار ہلاکتیں بھی ہو چکی ہیں۔ ملک کے بڑے حصے میں ابھی تک ٹیسٹنگ نہیں ہو رہی ہے۔
اس وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہرات اور کابل میں شہریوں کی نقل و حرکت پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ملک میں افراتفری اور اشیائے ضرورت کی کمی کی بھی اطلاعات آئی ہیں۔
طالبان نے کابل میں ایک بڑی مذاکراتی ٹیم تشکیل دے کر بھیجنی تھی لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے صرف تین رکنی ٹیم مذاکرات کے لیے کابل بھیجی گئی۔
طالبان کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ تینوں فریق قیدیوں کی رہائی کے عمل کو مانیٹر کریں گے اور اس کے لیے ضروری تکنیکی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے۔
اگرچہ امریکہ نے طالبان سے معاہدے کے مطابق گذشتہ ماہ سے اپنی افواج کا انخلا شروع کر دیا ہے۔ تاہم صدر اشرف عنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ کے درمیان مختلف امور پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے قیدیوں کے تبادلے سے متعلق مذاکرات سست روی کا شکار ہوئے۔
خیال رہے کہ صدر اشرف غنی اور ان کے سیاسی حریف عبداللہ عبداللہ دونوں نے ہی افغانستان کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔ تاہم امریکی نمائندے نے اشرف غنی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔