برطانوی موجد جس نے 200 برس قبل اہم کاروباری چال چلی

جوزایا ویج وڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, ٹم ہارفرڈ
    • عہدہ, میزبان، 50 تھنگز دیٹ میڈ دی مارڈرن اکانومی

’ملکہ کو یہ نئی طرز کا برتن اتنا پسند آیا کہ انھوں نے نہ صرف اسے ایک نام دیا بلکہ سرپرستی دینے کا اعلان بھی کیا۔ انھوں نے حکم جاری کیا کہ اس کو ’کوئینز ویئر‘ یا ملکہ کا برتن کہا جائے اور اس برتن کو تیار کرنے والے شخص کی عزت افزائی اسے ذاتی کُوزہ گر تعینات کر کے کی گئی۔‘

یہ جوسایا ویج وڈ کی کہانی ہے۔

جوسایا کے سوانح نگار برائن ڈولن کا خیال ہے کہ ملکہ شارلیٹ کا یہ ’حکم‘ جاری کرنا درحقیقت ویج وڈ کے مشورے کے باعث تھا کیونکہ ویج وڈ ظروف ساز اور کاروباری شخصیت ہونے کے ناطے کافی ہوشیار شخص تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کے پہلے مینیجمینٹ اکاؤنٹنٹ تھے۔ وہ ایک ایسے کیما دان تھے جنھوں نے اس شعبے کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ بھی خاموشی سے۔

وہ سارا وقت کیمیائی تجربے کرتے رہتے تھے، خصوصاً چکنی مٹی کو استعمال کرنے اور پکانے کے طریقوں سے متعلق۔

پھر ان تجربات سے اخذ کیے جانے والے نتائج کو وہ ایک کاپی میں خفیہ کوڈز کی صورت میں اس لیے درج کرتے کہ مبادا کہیں ان کا کوئی مخالف اسے چوری نہ کر لے۔

شو پیس

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشنشاندار اور چمکدار ظاہری شکل کے باعث جلد ہی یہ ’کوئینز ویئر‘ کے نام سے جانا جانے لگا

ان کا پہلا بڑا کام ایک نئی قسم کا ہلکا بادامی رنگ کا برتن تھا۔ اس کی مدد سے انھوں نے چائے پیش کرنے کے انداز میں جدت پیدا کی اور اسی چیز نے ملکہ کو متاثر کیا۔

یہ ’اپنی ظاہری شکل میں بالکل نیا تھا‘ اور اس پر شاندار اور چمکدار ملمع کاری تھی۔ جلد ہی یہ ’کوئینز ویئر‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔

ویج وڈ ایک کامیاب لابیسٹ (ترغیب کار) بھی تھے۔

سنہ 1760 کی دہائی میں نارتھ سٹیفورڈ شائر کے ظروف سازوں کو اپنا تیار سامان بڑے شہروں تک پہنچانے کے لیے میلوں طویل ناہموار راستہ طے کرنا پڑتا۔ یہ راستہ ہڈیوں کو ہلا دینے والا اور ظروف کو توڑ دینے والا تھا۔

ویج وڈ نے سرمایہ کاروں کو ترغیب دلائی اور پارلیمان کو راضی کیا کہ وہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’ٹرینٹ‘ کو ’میرسی‘ سے ملانے والی ایک نہر تعمیر کرنے کی منظوری دیں۔

ان کے ساتھی کُوزہ گر اس بات پر بہت خوش تھے مگر اس وقت تک جب تک انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ویج وڈ نے چالاکی سے پہلے ہی اس مجوزہ نہر سے منسلک بہتر زمین خرید کر نہر کنارے ایک نئی فیکٹری تعمیر کر لی تھی۔

لیکن شاید ان کا سب سے متاثر کن کارنامہ مناپلی تھیوری کے ایک مسئلے کو اس کے بیان کرنے سے 200 برس قبل حل کرنا تھا۔

سٹیو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسٹیو جابز نے پہلے آئی فون کی لانچنگ کے وقت اس کی قیمت 600 ڈالر بتائی اور پھر دو ماہ بعد اسے 400 ڈالرز تک گرا دیا

نوبیل انعام یافتہ ماہر معیشت رونلڈ کوس نے اس مسئلے کو سب سے پہلے الفاظ میں بیان کیا۔

ماہر معیشت رونلڈ کہتے ہیں کہ فرض کیجیے کہ آپ ایک اجارہ دار ہیں۔ آپ نے اکیلے ہی ایک خاص چیز تیار کی۔ بہت سے لوگ اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ چند لوگ اس کی بہت زیادہ قیمت ادا کریں گے جبکہ چند لوگ بہت کم۔ (اس کم قیمت میں بھی منافع شامل ہو گا مگر کم)۔ آپ پہلے والے گروپ سے اپنی چیز کی زیادہ قیمت وصول کرنا چاہیں گے جبکہ دوسرے گروپ سے کم۔

مگر آپ یہ کیسے کریں گے؟ ایک ممکنہ جواب یہ ہے کہ اپنی چیز کی لانچنگ یا ابتدائی قیمت بہت زیادہ رکھیں اور بتدریج اسے کم کرتے جائیں۔

یہی سب کچھ سٹیو جابز نے پہلے آئی فون کی لانچنگ کے وقت کیا، جس کی قیمت 600 ڈالر تھی۔

دو ماہ بعد انھوں نے اس کی قیمت 400 ڈالر کر دی۔

ملکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجوسایا کے سوانح نگار برائن ڈولن کا خیال ہے کہ ملکہ شارلیٹ کا یہ ’حکم‘ جاری کرنا درحقیقت ویج وڈ کے مشورے کے باعث تھا کیونکہ ویج وڈ ظروف ساز اور کاروباری شخصیت ہونے کے ناطے کافی ہوشیار شخص تھے

اس بات سے سٹیو جابز کو دھچکہ لگا، لیکن ظاہر ہے کہ جن لوگوں نے 600 ڈالر کا آئی فون خرید لیا تھا وہ ان کے اس اقدام سے قطعاً خوش نہ تھے۔

یہی وجہ تھی کہ کوس نے بحث کی تھی کہ یہ حکمتِ عملی چل نہیں پائے گی۔

سب سے پہلے چیز خریدنے والوں کو سمجھ آ جائے گی کہ اگر وہ مزید انتظار کر لیتے تو وہ یہی چیز مزید سستی قیمت پر خرید سکتے تھے۔

سنہ 1972 میں ایک مقالے میں چھپنے والے اس خیال کو ’کوس کنجیکچر‘ کہا گیا۔

تاہم 200 برس قبل، سنہ 1772 میں ویج وڈ اس کاروباری ماڈل کو الفاظ کی شکل میں لکھ رہے تھے جو ان کے ذہن میں اس وقت آئی جب وہ ملکہ سے ملے اور شاید یہ ان کی مینیجمینٹ اکاؤنٹنگ کے شعبے کے لیے پہلی خدمت تھی۔

انھیں اس وقت فکسڈ کاسٹ (قائم لاگت) اور ویرئیبل کاسٹ (قیمت متغیرہ) کے درمیان فرق سمجھ آ گیا تھا۔ فکسڈ کاسٹ عموماً تحقیق اور ترقیاتی منصوبوں میں دیکھنے میں آتی ہے جبکہ ویریئیبل کاسٹ مزدوری اور خام مال کی خریداری میں۔

انھوں نے اپنے کاروباری شراکت دار کو بتایا کہ آغاز میں ’عام گلدانوں کو محلوں کے لیے قیمتی بنانے میں ’بڑی قیمت‘ لگی۔

پیلٹرو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنمثال کے طور پر ذیورات کی ڈیزائنر اینا ہو نے رپورٹس کے مطابق اداکارہ گونیتھ پیلٹرو کو 10 لاکھ ڈالر کے عوض آسکرز ایوارڈ کی تقریب میں ایک ہیروں کا ہار پہننے کا کہا

تاہم جب انھوں نے تمام مراحل کو بہتر بنا لیا اور کارکنوں کو سکھا دیا تو وہ ان قیمتی شو پیسز کی کاپیاں سستے داموں بنا سکتے تھے۔ اس وقت تک ’ان گلدانوں کو اہم افراد کے محلوں میں پڑے ہوئے اتنا وقت گزر چکا تھا کہ متوسط طبقہ ان کے گن گانے لگا تھا۔‘

آپ کے کانوں میں شاید نقدی کے رجسٹرز کی آواز آئے جب ویج وڈ یہ لکھتے ہیں کہ ’متوسط طبقے کے افراد کم قیمت پر انھی گلدانوں کی ایک بڑی تعداد خرید سکتے ہیں۔‘

انھوں نے صدیوں پہلے ایک ایسا عمل کیا تھا جسے بعد میں ’ٹرکل ڈاؤن‘ تھیوری آف فیشن کہا گیا۔ یعنی لوگ ان لوگوں کی نقل کرنے کوشش کرتے ہیں جنھیں وہ معاشی درجے میں اپنے سے بہتر جانتے ہیں۔

مثال کے طور پر زیورات کی ڈیزائنر اینا ہو نے رپورٹس کے مطابق اداکارہ گونیتھ پیلٹرو کو 10 لاکھ ڈالر کے عوض آسکرز ایوارڈ کی تقریب میں ایک ہیروں کا ہار پہننے کا کہا۔ انھوں نے ایسا کیوں کیا ہو گیا؟ اس لیے کہ انھیں امید تھی کہ وہ یہ رقم دیگر افراد کی جانب سے خریداری میں اضافے سے حاصل کر پائیں گی۔

ہالی وڈ کے ممتاز اداکاروں سے قبل شاہی خاندانوں کے شاہی کردار ہوا کرتے تھے۔ سنہ 1760 میں آپ معاشی درجے میں برطانیہ کے شاہی خاندان سے بہتر نہیں ہو سکتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ویج وڈ کی ’ملکہ کے برتن‘ والی چال خوب فائدہ مند ثابت ہوئی۔ انھوں نے لکھا کہ ان دنوں ’بکری شاندار‘ ہو رہی تھی۔

سٹیفورڈ شائر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہاں سے انھوں نے یہ اخذ کیا کہ اب انھیں 'زیادہ سے زیادہ محنت اور خرچہ' 'شاہی خاندان' سے اپنی مصنوعات کی منظوری پر لگانا چاہیے نہ کہ خود مصنوعات پر

ان کی مصنوعات مارکیٹ میں دیگر افراد کے مقابلے میں دگنی قیمت پر بکنے لگی اور ویج وڈ نے یہاں اپنے آپ سے ایک انتہائی اہم سوال پوچھا۔ وہ یہ کہ ’ان مصنوعات کی فروخت میں ان کی افادیت اور خوبصورتی کا زیادہ ہاتھ ہے یا ان کو متعارف کرانے کے طریقے کا؟‘

یہاں سے انھوں نے یہ اخذ کیا کہ اب انھیں ’زیادہ سے زیادہ محنت اور خرچہ‘ ’شاہی خاندان‘ سے اپنی مصنوعات کی منظوری پر لگانا چاہیے نہ کہ خود مصنوعات پر۔

تاہم اب جوسایا کو کیا بنانا چاہیے؟ اس کا ربط ’فن کے قدردانوں‘ سے تھا جو فنی نمونوں کے امیر ذخیرہ اندوز یا جمع کرنے والے کلیکٹرز تھے جو ان چیزوں کو اپنے یورپ کے گرانڈ ٹورز سے لے کر آئے تھے۔

انھیں پتا چلا کہ سب سے نئی اور قابل قدر چیز اٹلی میں کھدائی میں ملنے والی قدیم ایتروریا کے مٹی کے برتن تھے۔ کیا ویج وڈ اس قسم کی کوئی چیز بنا سکتے تھے؟

وہ اپنے لیبارٹری میں کانسی کے پاؤڈر، لوہے، سلفیٹ اور خام سرمے پر کام کرنے لگے اور ایک ایسا رنگ تیار کیا جو کہ ایتروریا کے طرز کی مکمل نقل تھا۔

شاہی گاہک اس پر لپکے اور ایک معمر لارڈ نے تین گلدانوں کا آرڈر دیتے ہوئے کہا کہ تم ’قدیم لوگوں کو پیچھے چھوڑ دو گے۔‘

اور ویج وڈ تجربے کرتے رہے۔ روایتی طور پر مٹی کو آگ میں رکھا جاتا تھا پھر اس پر پینٹ کیا جاتا یا پھر اس پر میناکاری کی جاتی تھی لیکن ویج وڈ نے اس چیز پر کام کیا کہ مٹی کو آگ میں پکانے سے قبل اس پر دھات کیسے چڑھایا جائے کہ وہ نیم شفاف تاثر پیدا کرے۔

اعلیٰ قسم کی پکی ہوئی چکنی مٹی کے برتن ’جیسپر ویئر‘ ہلکے نمایاں نیلے رنگ میں آتے تھے اور اس پر سفید ابھری ہوئی نقاشی کو آج بھی ویج وڈ کے برانڈ سے منسلک کیا جاتا ہے۔

جیسپرویئر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشناعلیٰ قسم کی پکی ہوئی چکنی مٹی کے برتن 'جیسپر ویئر' ہلکے نمایاں نیلے رنگ میں آتے تھے اور اس پر سفید ابھری ہوئی نقاشی کو آج بھی ویج وڈ کے برانڈ سے منسلک کیا جاتا ہے

یہ دوسری زبردست کامیابی تھی۔ لیکن ویج وڈ مونوپولی کے چکر میں کیوں نہیں پڑے؟

کچھ دنوں کے بعد ان کے شاہی گاہکوں نے یہ ضرور پتا چلا لیا ہو گا کہ ویج وڈ نے جب بھی کوئی چیز لانچ کی ہے جسے انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا اسے وہ تھوڑے انتظار کے بعد زیادہ سستی قیمت پر حاصل کر سکتے ہیں۔

لیکن ’ٹریکل ڈاؤن افیکٹ‘ دوںوں طرح سے کام کرتا ہے۔ اگر لوگ سماجی طور پر خود سے اعلیٰ افراد کی نقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور آپ پہلے سے ہی سب سے اوپر ہیں، تو آپ کیا کریں گے؟ یقیناً آپ یہ کوشش کریں گے کہ بقیہ لوگوں سے مختلف نظر آئیں۔

بعض ماہر معاشیات فیشن کو اب کوس کے مونوپولی کے اصول میں استثنیٰ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اگرچہ آپ کو پتا ہے کہ آپ کوئی چیز سستی حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ قدرے انتظار کریں لیکن پھر بھی آپ اسے فوراً حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ویج وڈ نے جس چیز سے ملکہ کو متاثر کیا تھا انھوں نے چند برسوں بعد محسوس کیا کہ وہ ’بھونڈا ہے اور ہر جگہ عام ہے۔‘ یہ ایسا ہے کہ اگر عظیم لوگ خود کو عام لوگوں سے علیحدہ کرنا چاہتے ہیں تو انھیں اپنی دولت اور نئی چیزوں میں اپنی اچھی پسند کی نمائش کرنا ہو گی۔

اور ویج وڈ کے پاس ہمیشہ کوئی نئی چیز موجود ہوتی تھی جو وہ انھیں بیچ سکتے تھے۔