قاسم سلیمانی کی ہلاکت: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کہتے ہیں امریکہ نے 'ایک عفریت' کو مار ڈالا

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو ایک 'عفریت' قرار دیا ہے

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو ایک 'عفریت' قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے قاسم سلیمانی کو ہلاک کر کے بہت سے جانیں بچائی ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ قاسم سلیمانی گذشتہ جمعے جب بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے اس وقت وہ ایک ’بڑے حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔‘

تاہم صدر ٹرمپ ایران کے ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے کی دھمکی سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیے۔

واضح رہے کہ منگل کو ایرانی حکام کے مطابق عراق میں امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی تدفین کے موقع پر بھگدڑ مچنے سے 50 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہوگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

قاسم سلیمانی

،تصویر کا ذریعہAFP

امریکی صدارتی اوول دفتر میں گفتگو کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے عراق کے معاملے پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوج کا انخلا ملک (عراق) کے لیے سب سے خراب چیز ہو گی۔

ان کا یہ بیان ایک خط کے بعد سامنے آیا ہے جس پر امریکی فوج نے عراق سے انخلا سے متعلق پیغام عراقی وزیر اعظم کو بھیجا تھا جبکہ بعدازاں امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ خط غلطی سے عراق کے وزیر اعظم کو بھیجا گیا تھا۔

یاد رہے کہ پانچ جنوری کو عراق کی پارلیمان نے امریکی فوج کے ملک سے انخلا سے متعلق ایک قرار داد منظور کی تھی۔ جبکہ امریکی صدر نے ایسا کرنے پر عراق پر سخت پابندیوں کا کہا تھا۔

ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

صدر ٹرمپ کا تازہ بیان کیا ہے؟

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہReuters

صدر ٹرمپ نے امریکی ڈرون حملے کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ انتقامی کارروائی ہے۔

انھوں نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ ایک عفریت تھا۔اور وہ اب کوئی عفریت نہیں رہا۔وہ مر گیا ہے۔ وہ ہمارے خلاف ایک بڑے حملے اور برے حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی بھی اس کے بارے میں شکایت کرسکتا ہے۔‘

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ قاسم سلیمانی ’حزب اللہ کے سربراہ کے ساتھ سفر کر رہا تھا‘ اور ’اسے مار کر بہت سی جانیں بچائی گئی ہیں۔‘

جنرل قاسم سلیمانی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

صدر ٹرمپ شاید عراق کے کتائب حزب اللہ ملیشیا گروپ کے سربراہ ابو مہدی المہندس کی طرف اشارہ کر رہے تھے، جو قاسم سلیمانی کے ساتھ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے ایران کے ثقافتی مقامات کے معاملے پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ اس سے قبل انھوں نے عہد کیا تھا کہ اگر ایران انتقامی حملے کرتا ہے تو انھیں ’بہت تیز اور سختی سے نشانہ بنایا جائے گا۔‘

لیکن اقوام متحدہ اور یہاں تک کہ ان کے اعلی معاونین نے بھی تسلیم کیا کہ اس سے امریکہ نے جن بین الاقوامی قوانین پر دستخط کیے ہیں ان کے منافی ہوں گے، اور دیگر ممالک اس کو جنگی جرم قرار دیتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’مختلف قوانین کے مطابق‘ امریکہ کو ان ثقافتی مقامات کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ اگر قانون یہی ہے تو، میں قانون کی پاسداری کرنا پسند کرتا ہوں۔‘

عراق کے بارے میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ کسی وقت فوج واپس بلانا چاہیں گے لیکن ابھی 'یہ صحیح وقت نہیں ہے۔‘

اگر عراق سے فوج کے انخلا کا کہا گیا تو اس پر پابندیاں عائد کرنے کے حوالےسے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف تب ایسا کریں گے اگر امریکہ کو عزت و احترام نہ دیا گیا۔

نیٹو اور امریکہ نے کہا ہے کہ ممکنہ انتقامی حملوں کے پیش نظر عراق میں فوجیوں کو دوبارہ تعینات کیا جارہا ہے۔

امریکہ نے اور کیا کہا ہے؟

پومپیو
،تصویر کا کیپشنامریکی سیکرٹری خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی سفارتی مشن پر بغداد نہیں آئے تھے

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور وزیر دفاع مارک ایسپر دونوں نے منگل کو بریفنگ دی ، کیونکہ امریکہ اپنا موقف بیان کرتا رہا۔

وزیر خارجہ پومپیو نے میڈیا رپورٹس کا حوالہ دیا کہ سلیمانی بغداد کے امن مشن پر تھے جب وہ مارے گئے، انھوں نے کہا: 'ہمیں معلوم ہے کہ یہ سچ نہیں تھا۔'

جبکہ وزیر دفاع ایسپر نے کہا: 'مجھے لگتا ہے کہ ہمیں توقع کرنی چاہئے کہ [ایران] خطے میں پراکسی گروپوں کے ذریعہ یا 'خود سے' کسی نہ کسی شکل میں جوابی کارروائی کرے گا۔

انھوں نے کہا کہ 'ہم ایران کے ساتھ جنگ شروع کرنے کے خواہاں نہیں ہیں لیکن ہم اس کو ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔'

وزیر دفاع ایسپر نے ایرانی کمانڈر قاسم سلیمانی کو مارنے کے فیصلے کے پیچھے امریکی انٹلیجنس پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ان معلومات کے مطابق چند دنوں میں سلیمانی کی جانب سے ایک حملے کی توقع کی گئی تھی۔

انھوں نے کہا کہ اس بارے میں مزید تفصیلات چند منتخب کانگریس اراکین کو فراہم کی جائیں گی۔

ایران کا تازہ بیان کیا ہے؟

ظریف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ ایرانی قانون کی پاسداری کرنے والی قوم ہے اور تہران جب بھی کوئی قدم لے گا تو وہ غیر موزوں نہیں ہو گا بلکہ 'جائز اہداف' کے خلاف ہی ہو گا۔

یہ بات انھوں نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں کی۔

جواد ظریف نے کہا کہ امریکہ نے ایک ایسا راستہ اختیار کیا ہے جس کے اپنے سنگین نتائج ہوں گے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ایران کے سپریم لیڈر نے ایرانی سکیورٹی کونسل کو ایرانی فورسز کے ذریعے امریکہ کو موزوں اور براہ راست جواب دینے کی ہدایت کی ہے تو انھوں نے کہا کہ ایران کا کوئی اقدام 'غیر موزوں' نہیں ہوگا۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ قانونی اہداف کے بارے میں بین الاقوامی جنگی قانون بہت واضح ہے۔

یاد رہے کہ امریکہ نے جمعے کے روز عراق میں فضائی حملہ کر کے ایران کے سرکردہ عسکری کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا تھا۔ قاسم سلیمانی کو ایران میں ایک قومی ہیرو کا درجہ حاصل تھا اور انھیں ملک میں آیت اللہ خامنہ ای کے بعد سب سے طاقتور شخصیت سمجھا جاتا تھا۔

قاسم سلیمانی کی تدفین کے وقت کیا ہوا؟

قاسم سلیمانی کا جنازہ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنپیر کو تہران میں قاسم سلیمانی کے جنازے کے موقع پر بھی شہر کی شاہراہیں اور گلیاں سیاہ پوش لوگوں سے بھری ہوئی تھیں

دارالحکومت تہران میں پیر کو قاسم سلیمانی کی نمازِ جنازہ میں لاکھوں افراد کی شرکت کے بعد ایران کے سرکاری ٹی وی پر دکھائے جانے والے مناظر کے مطابق منگل کو کرمان میں بھی سیاہ لباس پہنے ہوئے بڑی تعداد میں عوام انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی کے مطابق کرمان میں قاسم سلیمانی کے جنازے میں لاکھوں افراد شریک تھے۔

جنازے کے جلوس میں شریک افراد نے ایرانی پرچم اور قاسم سلیمانی کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں اور وہ 'مرگ بر امریکہ' یا امریکہ مردہ باد اور ٹرمپ مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔

عینی شاہدین نے بی بی سی فارسی کو بتایا کہ بہت زیادہ ہجوم ہونے کے باعث شہر کی سڑکیں لوگوں کی تعداد کو سنبھالنے کے لیے ناکافی تھیں اور دیگر سڑکیں بند ہونے وجہ سے وہاں سے بچنے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا۔

ویڈیو آن لائن نے لوگوں کو زمین پر دکھایا، ان کے چہروں کو کپڑے سے ڈھانپ گیا تھا۔