ترکی کی لیبیا میں افواج تعینات کرنے پر قانون سازی: لیبیا کے باغی رہنما کا ترکی کے خلاف ’جہاد‘ کا اعلان

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیبیا کی باغی فوج ’ لیبیئن نیشنل آرمی‘ کے سربراہ فیلڈ مارشل خلیفہ حفتر نے ترکی کے لیبیا میں افواج تعینات کرنے کے حوالے سے منظور کیے گئے قانون کے خلاف جہاد کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خیال رہے کہ دو جنوری کو ترکی کی پارلیمان نے ایک قانون منظور کیا تھا جو ترک حکومت کو لیبیا میں افواج تعینات کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ ترکی ان افواج کو ’ لیبئن نیشنل آرمی‘ (ایل این اے) کے مخالف گروہوں کی مدد کے لیے بھیج رہا ہے جنھیں طرابلس میں قائم قومی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔
مقامی ٹی وی چینل پر چار جنوری کو نشر ہونے والی تقریر میں باغی رہنما خلیفہ حفتر نے مردوں اور خواتین سمیت تمام عوام سے ’اکھٹے ہونے‘ اور تمام اختلافات بھلا کر ترک افواج کے ملک میں داخلے کے خلاف کھڑے ہونے کی درخواست کی۔
مزید پڑھیے
گذشتہ برس اپریل میں ایل این اے نے موجودہ حکومت اور اس کے حمایت یافتہ ملیشیا سے طرابلس کا قبضہ لینے کے لیے ایک فوجی آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
حفتر نے اپنی چار جنوری کی تقریر میں یہ بھی کہا ہے کہ طرابلس حاصل کرنے کی جنگ آخری مراحل میں ہے۔‘
یاد رہے کہ لیبیا میں اس خانہ جنگی کے دوران حکومت کو ترکی کی جانب سے امداد ملتی رہی ہے اور ترکی متعدد مرتبہ مغربی لیبیا میں اسلحہ بھی پہنچاتا رہا ہے۔
ترکی کے متنازع قانون کی منظوری پر عالمی ردِ عمل
جمعرات کے روز ترکی کے قانون سازوں نے اس قانون کی منظوری دی تھی۔ یہ قانون 184 کے مقابلے میں 325 ووٹوں سے منظور ہوا۔
ترکی لیبیا میں اقوامِ متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کا اتحادی ہے جو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں موجود ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیبیائی حکومت جنرل خلیفہ حفتر کی سربراہی میں ایسی فوج کا مقابلہ کر رہی ہے جس کا گڑھ مشرقی لیبیا میں ہے۔
اس قانون پر ردِعمل دیتے ہوئے عالمی برادری نے تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ اس سے خطے کا امن متاثر ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک فون کال میں ترک صدر رجب طیب اردوغان کو لیبیا میں ’بیرونی مداخلت‘ سے خبردار کیا۔
دوسری جانب جمعہ کے روز یونانی وزیرِ اعظم کریاکس متسوتاکس، اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے خبردار کیا ہے کہ لیبیا میں افواج کی تعیناتی ’خطے میں امن کے لیے ایک خطرہ ہے۔‘
مشترکہ اعلامیے میں تینوں سربراہان نے کہا ہے کہ یہ قانون اقوام متحدہ کے اسلحے سے متعلق قوانین کی شدید خلاف ورزی ہے۔
جنرل حفتر کی حمایت کرنے والے مصر نے بھی ترکی کے اس اقدام کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس سے ’روم کے خطے کے امن پر منفی اثرات پڑیں گے۔‘









