آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ: ’ایران کو حملے کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی، یہ وارننگ نہیں دھمکی ہے‘
عراق میں امریکی سفارت خانے پر حملے کی پشت پناہی کا الزام ایران پر عائد کرنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو اس اقدام کے ردعمل میں سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے۔
سال نو کے آغاز پر صدر ٹرمپ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایران کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ایران کو اس حملے میں ہونے والے کسی بھی جانی اور مالی نقصان کی ’بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔‘
منگل کے روز عراق کے شہر بغداد میں ہزاروں مظاہرین اور ملیشیا کے جنگجوؤں نے امریکی سفارتخانے کے باہر جمع ہو کر پرتشدد احتجاج کیا تھا اور مظاہرین سفارت خانے کے احاطے میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’یہ محض وارننگ نہیں بلکہ دھمکی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
دوسری جانب امریکہ کے وزیر دفاع مارک اسپر نے اعلان کیا ہے کہ عراق کے جس علاقے میں سفارت خانے پر حملہ ہوا ہے وہاں فوری طور پر 750 سپاہیوں کو تعینات کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ امریکہ اپنی عوام کے مفادات کا دنیا میں ہر جگہ تحفظ کرے گا۔
بغداد میں امریکی سفارتخانے پر مظاہرین کے حملے کے بعد امریکی صدر نے اپنے ردعمل میں اس واقع کا الزام ایران پر لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس ’حملے میں ایران کا ہاتھ ہے‘ اور یہ کہ اسے ’پوری طرح ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔‘
جب مظاہرین نے سفارت خانے کی بیرونی دیوار عبور کی تو اندر تعینات امریکی فوجیوں نے ان پر آنسو گیس کی شیلنگ کی۔ اس کے علاوہ ایک گارڈ ٹاور کو بھی بظاہر نذرِ آتش کر دیا گیا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ایران نے ایک امریکی کانٹریکٹر کو ہلاک کیا اور کئی کو زخمی۔ ہم نے بھرپور جواب دیا اور ہمیشہ دیں گے۔ اب عراق میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔ اسے پوری طرح ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ عراق اپنی فورسز کے ذریعے سفارتخانے کی حفاظت کرے گا۔‘
اس سے پہلے روئٹرز نے عراقی وزارتِ خارجہ کے حوالے سے بتایا تھا کہ بغداد میں امریکی سفیر اور سفارتی عملے کو وہاں سے نکال لیا گیا ہے۔
مظاہرین اتوار کو عراق اور شام کی سرحد کے قریب ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کے اڈوں پر امریکی فضائی حملوں کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے۔
امریکی افواج نے یہ حملہ ایک عراقی فوجی اڈے پر راکٹ حملے میں امریکی کنٹریکٹر کی ہلاکت کے ردِعمل میں کیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق عراق کے وزیرِ اعظم عبدالمہدی کی جانب سے ان حملوں کی مذمت کی گئی ہے جس میں 25 جنگجو ہلاک اور 55 زخمی ہوئے تھے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق دھاوا بولنے کی کوشش امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے ملیشیا جنگجوؤں کے جنازوں کے بعد ہوئی جس کے بعد وہ سخت سیکیورٹی والے بغداد کے گرین زون کی جانب مارچ کرتے ہوئے امریکی سفارتخانے تک پہنچ گئے۔
اس کے علاوہ مظاہرین نے امریکہ کے خلاف نعرے بازی کی، پانی کی بوتلیں سفارتخانے پر ماریں، اور باہر لگے سیکیورٹی کیمرے توڑ دیے۔ اس کے علاوہ انھوں نے دیواروں اور کھڑکیوں پر کتائب حزب اللہ کی حمایت میں وال چاکنگ بھی کی۔
مظاہرین کو سفارت خانے میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے عراقی سپیشل فورسز کے دستے مرکزی دروازے پر تعینات کر دیے گئے تھے۔
ان حملوں کے بعد ایران اور امریکہ کے درمیان عراق میں پراکسی جنگ کا خطرہ مزید واضح ہوگیا ہے۔
ان مظاہرین میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا عصائب اہل الحق کے رہنما قیس الخزالی اور کئی دیگر سینیئر ملیشیا رہنما بھی موجود تھے جبکہ عمارت کے گرد موجود باڑ پر کتائب حزب اللہ کے پرچم آویزاں کر دیے گئے۔
روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے ملیشیا رہنما قیس الخزالی نے کہا کہ 'امریکیوں کی ایران میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ برائیوں کی جڑ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ نکل جائیں۔'
خزالی عراق کے سب سے بااثر اور پسند کیے جانے والے ملیشیا رہنماؤں میں سے ہیں جبکہ وہ ایران کے سب سے اہم اتحادیوں میں شامل ہیں۔
ملیشیا کمانڈر جمال جعفر ابراہیمی عرف ابو مہدی المہندس اور بدر آرگنائزیشن کے رہنما ہادی العامری بھی اس مظاہرے میں موجود تھے۔
احتجاج شروع ہونے کے چند گھنٹے بعد ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس فائر کی گئی جس کے دوران لاؤڈ سپیکرز پر اعلانات کے ذریعے ملیشیا ارکان نے مظاہرین سے علاقہ خالی کرنے کے لیے کہا۔
امریکی سینیٹر مارکو روبیو نے اس دوران اپنی ٹویٹ میں کہا کہ اس پوری ہنگامہ آرائی کا براہِ راست ذمہ دار ایران ہے۔
یاد رہے کہ عراق میں کئی ہفتوں سے حکومت مخالف مظاہرے جاری ہیں جو بسا اوقات پرتشدد بھی ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے مظاہرین کربلا میں ایرانی سفارتخانے پر بھی حملہ کر چکے ہیں۔