ولادیمیر پوتن: 20 سال 20 تصویریں

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ولادیمیر پوتن کو صدر اور وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اپنے ملک کی قیادت کرتے ہوئے 20 سال پورے ہونے والے ہیں۔اس دوران وہ خطے کے سیاسی بحرانوں کا حصہ رہے۔
بل کلنٹن وائٹ ہاؤس میں تھے جب کے جی بی کے سابق ایجنٹ پہلی بار 31 دسمبر 1999 کو روس کے صدر بنے۔ اس کے بعد 20 برس میں امریکہ میں تین صدور آئے جبکہ پانچ برطانوی وزرائے اعظم آئے۔
عالمی تنازعات سے مقامی سکینڈلز پھر کھیلوں کی دنیا میں فتوحات سے پروپیگینڈا فوٹوز تک، ہم تصاویر میں دیکھیں گے کہ پوتن کے اقتدار کی دو دہائیاں کیسی گزریں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کے جی بی کے سابق افسر کا بطور وزیراعظم تقرر ہو چکا تھا جب روس نے اکتوبر 1999 میں رہائشی عمارت پر سلسلہ والے جان لیوا حملوں کے بعد چیچنیا کے خلاف دوسری جنگ کا آغاز کیا۔
ان کی صدارت کے آغاز میں ہی روس نے مزاحمت سے بھرپور اپنے جنوب میں اس ملک کا محاصرہ کیا۔ روسی فوج نے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کا محاصرہ کر لیا۔ سنہ 2003 میں اقوامِ متحدہ نے گروزنی کو اس محاصرے کے باعث کرہ ارض پر سب سے تباہ شدہ شہر قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کئی برسوں تک روس پر عسکریت پسندوں کے حملے ہوتے رہے جیسے کہ سنہ 2004 میں بیسلان سکول کے محاصرے میں 330 لوگ مارے گئے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔
صدر پوتن نے چیچنیا میں جنگی مشن کو سرکاری طور پر سنہ 2009 تک ختم نہیں کیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty
پوتن نے مارچ سنہ 2000 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر دفتر سنبھالا اور چند ہی ماہ میں انھیں اپنی ساکھ سے متعلق بحران کا سامنا تھا۔
دی کرسک نامی آبدوز کے حادثے میں عملے کے 118 ارکان مارے گئے۔

،تصویر کا ذریعہITAR-TASS/AFP via Getty Images
جب اگست 2000 میں کرسک ڈوبی تو صدر بحیرہ اسود پر چھٹیاں منانے گئے تھے اور وہ فوری طور پر واپس نہیں لوٹے۔ کرسک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو اطلاع دینے میں کئی دن لگا دیے گئے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اپنے اقتدار کی پہلے دہائی کے دوران ولادیمیر پوتن کے مغربی رہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے باوجود اس کے کہ وہ ان کی خارجہ پالیسیوں پر تنقید کیا کرتے تھے۔

،تصویر کا ذریعہITAR-TASS/AFP via Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images
روس نے پہلی بار جی ایٹ اجلاس کی میزبانی سنہ 2006 میں کی اور اس اقتصادی گروہ میں اپنی رکنیت کی توثیق کر دی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
روسی آئین کے مطابق صدر پوتن تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتے تھے اس لیے سنہ 2008 میں وہ چار سال کے لیے ملک کے وزیرِ اعظم بن گئے۔
اس وقت صدر دمتری مدودیو بنے اور کچھ لوگ انھیں صرف ایک کٹھ پتلی صدر کے طور پر دیکھتے تھے جو اپنے باس کا ساتھ دے رہے تھے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سنہ 2008 مںی جب جارجیا نے خود سے الگ ہو جانے والے علاقے جنوبی اوسیٹیا پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے فوجیں بھیجیں تو جواباً روس نے جارجیا پر حملہ کر کے بہت اندر تک پیش قدمی کر لی۔
اگست میں ہونے والی یہ مختصر جنگ مغربی دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی لیکن 2014 میں مشرقی یوکرین میں دخل اندازی وہ معاملہ تھا جس کی وجہ سے پوتن اور مغربی رہنماؤں کے تعلقات کھٹائی میں پڑے۔
یوکرین کے خطے کرائمیا میں روس کی فوجی کارروائی اور پھر اپنے ساتھ الحاق کروانا یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے پابندیوں کی وجہ بنا اور جی ایٹ ممالک سے اس کی رکنیت معطل کر دی گئی۔

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images
شام کی چار سالہ خانہ جنگی کے بعد روس نے اپنی اتحادی شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو گرنے سے بچانے کے لیے دخل اندازی کی۔ صدر پوتن کی جانب سے شام کے لیے جنگی جہاز اور اسلحہ بھیجنے کی وجہ سے وہاں طاقت کا توازن بدل گیا۔

،تصویر کا ذریعہTASS/Getty
سنہ 2016 کے امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی انٹیلیجنس سروسز کا کہنا تھا کہ روس نے امریکی صدارتی مہم میں دخل اندازی کی تھی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سنہ 2018 میں برطانیہ نے روس پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنی سابق جاسوس سرگئے سکرپل کو سیلزبری کے علاقے میں زہر دیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقتدار میں رہتے ہوئے وہ اپنی اور روس کی ساکھ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان برسوں میں ان کی جانب سے جاری کی گئی کئی تصاویر میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ایک مضبوط شخص ہیں۔

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انھوں نے کھیلوں کی حوالے سے روس کی شناخت کو بہتر بنایا اور سنہ 2014 میں سرمائی اولپمکس اور سنہ 2018 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔
سوچی اولمپکس کامیاب رہے تاہم ڈوپنگ سکینڈل کی گونج یہاں بھی سنائی دیتی رہی۔
انسداد منشیات ایجنسی نے گذشتہ ہفتے ہی روس پر کھیلوں کے تمام بڑے ایونٹس میں شرکت کرنے پر چار سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔ سنہ 2015 میں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق روس نے سرکاری طور پر ایتھلیٹس کے ڈوپنگ پروگرام کی سرپرستی کی تھی۔ رواں ماہ یہ بات سامنے آئی تھی کہ جنوری میں فراہم کیے گئے لیبارٹری ڈیٹا کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اگرچہ سنہ 2018 کا فیفا ورلڈ کپ ایک بین الاقوامی طور پر ایک کامیابی تھی تاہم ڈوپنگ سکینڈل کا مطلب ہے کہ روس سنہ 2022 میں قطر میں ہونے والے مقابلے میں شرکت نہیں کرسکے گا۔
تمام تصاویر کے حقوق محفوظ ہیں۔











