ولادیمیر پوتن: 20 سال 20 تصویریں

Russian President Vladimir Putin speaks during a campaign concert in March 2018

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنکے جی بی کے سابق ایجنٹ پہلے 31 دسمبر 1999 کو روس کے صدر بنے

ولادیمیر پوتن کو صدر اور وزیرِ اعظم کی حیثیت سے اپنے ملک کی قیادت کرتے ہوئے 20 سال پورے ہونے والے ہیں۔اس دوران وہ خطے کے سیاسی بحرانوں کا حصہ رہے۔

بل کلنٹن وائٹ ہاؤس میں تھے جب کے جی بی کے سابق ایجنٹ پہلی بار 31 دسمبر 1999 کو روس کے صدر بنے۔ اس کے بعد 20 برس میں امریکہ میں تین صدور آئے جبکہ پانچ برطانوی وزرائے اعظم آئے۔

عالمی تنازعات سے مقامی سکینڈلز پھر کھیلوں کی دنیا میں فتوحات سے پروپیگینڈا فوٹوز تک، ہم تصاویر میں دیکھیں گے کہ پوتن کے اقتدار کی دو دہائیاں کیسی گزریں۔

پوتن اور بورس یلسن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنولادی میر پوتن اگست 1999 میں وزیر اعظم تعینات ہوئے جس کے بعد 31 دسمبر کو وہ بورس یلسن کی جگہ صدر منتخب ہوئے

کے جی بی کے سابق افسر کا بطور وزیراعظم تقرر ہو چکا تھا جب روس نے اکتوبر 1999 میں رہائشی عمارت پر سلسلہ والے جان لیوا حملوں کے بعد چیچنیا کے خلاف دوسری جنگ کا آغاز کیا۔

ان کی صدارت کے آغاز میں ہی روس نے مزاحمت سے بھرپور اپنے جنوب میں اس ملک کا محاصرہ کیا۔ روسی فوج نے چیچنیا کے دارالحکومت گروزنی کا محاصرہ کر لیا۔ سنہ 2003 میں اقوامِ متحدہ نے گروزنی کو اس محاصرے کے باعث کرہ ارض پر سب سے تباہ شدہ شہر قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیے

پوتن تیارہ اڑاتے ہوئے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپوتن نے چیچنیا کے خلاف دوسری جنگ کے دوران مارچ 2000 میں جنگی طیارہ اڑایا

کئی برسوں تک روس پر عسکریت پسندوں کے حملے ہوتے رہے جیسے کہ سنہ 2004 میں بیسلان سکول کے محاصرے میں 330 لوگ مارے گئے جن میں اکثریت بچوں کی تھی۔

صدر پوتن نے چیچنیا میں جنگی مشن کو سرکاری طور پر سنہ 2009 تک ختم نہیں کیا تھا۔

سنہ 2004 میں بیسلان سکول محاصرے کے بعد روسی کابینہ کے ارکان نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا کیپشنسنہ 2004 میں بیسلان سکول محاصرے کے بعد روسی کابینہ کے ارکان نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ اس واقعے میں 330 افراد ہلاک ہوئے

پوتن نے مارچ سنہ 2000 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کامیاب ہو کر دفتر سنبھالا اور چند ہی ماہ میں انھیں اپنی ساکھ سے متعلق بحران کا سامنا تھا۔

دی کرسک نامی آبدوز کے حادثے میں عملے کے 118 ارکان مارے گئے۔

ولادیمیر پوتن کرسک آبدوز کے کمانڈر کے خاندان سے ملاقات کر رہے ہیں

،تصویر کا ذریعہITAR-TASS/AFP via Getty Images

،تصویر کا کیپشنولادیمیر پوتن کرسک آبدوز کے کمانڈر کے خاندان سے ملاقات کر رہے ہیں۔ حادثے کے بعد ان پر کڑی تنقید کی گئی تھی

جب اگست 2000 میں کرسک ڈوبی تو صدر بحیرہ اسود پر چھٹیاں منانے گئے تھے اور وہ فوری طور پر واپس نہیں لوٹے۔ کرسک حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے رشتہ داروں کو اطلاع دینے میں کئی دن لگا دیے گئے۔

سابق امریکی صدر جارج بش نے روسی صدر کو سنہ 2001 میں سرکاری دورے پر مدعو کیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسابق امریکی صدر جارج بش نے روسی صدر کو سنہ 2001 میں سرکاری دورے پر مدعو کیا جس کے دوران وہ صدر بش کی آبائی ریاست ٹیکساس بھی گئے

اپنے اقتدار کی پہلے دہائی کے دوران ولادیمیر پوتن کے مغربی رہنماؤں کے ساتھ اچھے تعلقات تھے باوجود اس کے کہ وہ ان کی خارجہ پالیسیوں پر تنقید کیا کرتے تھے۔

اٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے سنہ 2003 میں روس کا دورہ کیا

،تصویر کا ذریعہITAR-TASS/AFP via Getty Images

،تصویر کا کیپشناٹلی کے وزیر اعظم سلویو برلسکونی نے سنہ 2003 میں روس کا دورہ کیا اور عراق کے حالات پر تبادلہ خیال کیا۔
ملکہ برطانیہ نے ولادیمیر پوتن کو سنہ 2003 میں سرکاری دورے پر مدعو کیا

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنملکہ برطانیہ نے ولادیمیر پوتن کو سنہ 2003 میں سرکاری دورے پر مدعو کیا، یہ سنہ 1874 کے بعد سے کسی روسی رہنما کا پہلا دورہ تھا

روس نے پہلی بار جی ایٹ اجلاس کی میزبانی سنہ 2006 میں کی اور اس اقتصادی گروہ میں اپنی رکنیت کی توثیق کر دی۔

From left to right: Angela Merkel, Tony Blair, Jacques Chirac, Vladimir Putin and George W Bush

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 2006 کے جی ایٹ اجلاس کے بعد روسی صدر امریکی اور یورپی رہنماؤں کے ہمراہ

روسی آئین کے مطابق صدر پوتن تیسری مرتبہ صدر نہیں بن سکتے تھے اس لیے سنہ 2008 میں وہ چار سال کے لیے ملک کے وزیرِ اعظم بن گئے۔

اس وقت صدر دمتری مدودیو بنے اور کچھ لوگ انھیں صرف ایک کٹھ پتلی صدر کے طور پر دیکھتے تھے جو اپنے باس کا ساتھ دے رہے تھے۔

Vladimir Putin (2nd L) looks at a man injured during fighting in South Ossetia during a visit to a field hospital in Vladikavkaz, the provincial capital of the region of North Ossetia

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنجارجیا سے جنگ کے دوران پوتن نے بحثیت وزیر اعظم زخمیوں کی عیادت کی

سنہ 2008 مںی جب جارجیا نے خود سے الگ ہو جانے والے علاقے جنوبی اوسیٹیا پر قبضہ حاصل کرنے کے لیے فوجیں بھیجیں تو جواباً روس نے جارجیا پر حملہ کر کے بہت اندر تک پیش قدمی کر لی۔

اگست میں ہونے والی یہ مختصر جنگ مغربی دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی تھی لیکن 2014 میں مشرقی یوکرین میں دخل اندازی وہ معاملہ تھا جس کی وجہ سے پوتن اور مغربی رہنماؤں کے تعلقات کھٹائی میں پڑے۔

یوکرین کے خطے کرائمیا میں روس کی فوجی کارروائی اور پھر اپنے ساتھ الحاق کروانا یورپی یونین اور امریکہ کی جانب سے پابندیوں کی وجہ بنا اور جی ایٹ ممالک سے اس کی رکنیت معطل کر دی گئی۔

Putin on a big screen announcing the annexation of Crimea

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا کیپشنسنہ 2014 میں یوکرین کے خطے کرائمیا کے روس کے ساتھ الحاق کے بعد صدر پوتن کی مقبولیت میں اضافہ ہوا
صدر پوتن نے سنہ 2019 میں کرائمیا میں منعقدہ موٹر سائیکل ریلی میں شرکت ک

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا کیپشنصدر پوتن نے سنہ 2019 میں کرائمیا میں منعقدہ موٹر سائیکل ریلی میں شرکت کی، جس پر یوکرین کا کہنا تھا کہ یہ اس کی سالمیت کی خلاف ورزی ہے
Volodymyr Zelensky, Emanuel Macron, Vladimir Putin and Angela Merkel in Paris in December 2019

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیوکرین کے ساتھ تنازع کے پانچ سال بعد رواں ماہ صدر ولادومیر زیلینسکی کے ساتھ مذاکرات شروع ہوئے تاکہ لڑائی کو ختم کیا جا سکے

شام کی چار سالہ خانہ جنگی کے بعد روس نے اپنی اتحادی شامی صدر بشارالاسد کی حکومت کو گرنے سے بچانے کے لیے دخل اندازی کی۔ صدر پوتن کی جانب سے شام کے لیے جنگی جہاز اور اسلحہ بھیجنے کی وجہ سے وہاں طاقت کا توازن بدل گیا۔

Putin with Bashar al-Assad in 2017

،تصویر کا ذریعہTASS/Getty

،تصویر کا کیپشنصدر پوتن کی حمایت کے بعد شام میں جاری لڑائی کی نوعیت بدل گئی

سنہ 2016 کے امریکی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد امریکی انٹیلیجنس سروسز کا کہنا تھا کہ روس نے امریکی صدارتی مہم میں دخل اندازی کی تھی۔

Putin shaking hands with US President Donald Trump

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکی انٹیلیجنس سروس کا کہنا ہے کہ روس نے سنہ 2016 کے صدارتی انتخابات میں دخل اندازی کی

سنہ 2018 میں برطانیہ نے روس پر الزام عائد کیا کہ اس نے اپنی سابق جاسوس سرگئے سکرپل کو سیلزبری کے علاقے میں زہر دیا۔

Theresa May shaking hands with Vladimir Putin

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنروسی سابق جاسوس سرگئے سکریپل کو زہر دیے جانے کے بعد اس وقت کی برطانوی وزیرِ اعظم ٹریسامے کے ساتھ صدر پوتن کے تعلقات واضح طور پر کشیدہ ہوئے

اقتدار میں رہتے ہوئے وہ اپنی اور روس کی ساکھ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان برسوں میں ان کی جانب سے جاری کی گئی کئی تصاویر میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ وہ ایک مضبوط شخص ہیں۔

Putin carrying a sniper rifle while hunting topless

،تصویر کا ذریعہAFP/Getty

،تصویر کا کیپشنسنہ 2007 کی اس تصویر میں صدر ولادیمیر پوتن کو بغیر قمیض کے سنائپر رائفل اٹھائے منگولیا کی سرحد کے قریب دیکھا جا سکتا ہے
Putin frolicking in the snow with his dogs, 2013

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 2013 میں جاری کی گئی صدر پوتن کی تصویر جس میں وہ اپنے کتوں بفی اور یومے کے ساتھ کھیل رہے ہیں
Vladimir Putin slipping while playing ice hockey

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنانھوں نے اپنے دور صدارت میں بحثیت کھلاڑی اپنی صلاحیتوں کا بھی مظاہرہ کرتے ہوئے آئس ہاکی اور جوڈو کے میچز کھیلے

انھوں نے کھیلوں کی حوالے سے روس کی شناخت کو بہتر بنایا اور سنہ 2014 میں سرمائی اولپمکس اور سنہ 2018 میں ورلڈ کپ کی میزبانی کی۔

سوچی اولمپکس کامیاب رہے تاہم ڈوپنگ سکینڈل کی گونج یہاں بھی سنائی دیتی رہی۔

انسداد منشیات ایجنسی نے گذشتہ ہفتے ہی روس پر کھیلوں کے تمام بڑے ایونٹس میں شرکت کرنے پر چار سال کی پابندی عائد کر دی ہے۔ سنہ 2015 میں آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق روس نے سرکاری طور پر ایتھلیٹس کے ڈوپنگ پروگرام کی سرپرستی کی تھی۔ رواں ماہ یہ بات سامنے آئی تھی کہ جنوری میں فراہم کیے گئے لیبارٹری ڈیٹا کے ساتھ بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔

Putin gesturing at the World Cup trophy

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنروس کے سنہ 2018 میں فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کے لیے ولادیمیر پوتن نے ایک اہم کردار ادا کیا

اگرچہ سنہ 2018 کا فیفا ورلڈ کپ ایک بین الاقوامی طور پر ایک کامیابی تھی تاہم ڈوپنگ سکینڈل کا مطلب ہے کہ روس سنہ 2022 میں قطر میں ہونے والے مقابلے میں شرکت نہیں کرسکے گا۔

تمام تصاویر کے حقوق محفوظ ہیں۔