امریکہ اور ایران کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ: امریکی سکالر زیو وانگ اور ایرانی سائنس دان مسعود سلیمانی رہا

،تصویر کا ذریعہUS EMBASSY BERN
امریکہ اور ایران کے درمیان ہفتے کے روز قیدیوں کا تبادلہ ہوا ہے، ایران نے چینی نژاد امریکی سکالر جبکہ امریکہ نے ایک ایرانی سائنس دان کو رہا کیا ہے۔
قیدیوں کا یہ تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں شدید تناؤ پایا جاتا ہے۔
ایران کے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے قیدیوں کے تبادلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں خوش ہیں۔
جس کے چند گھنٹوں بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں لکھا: ’انتہائی مناسب مذاکرات پر ایران کا شکریہ۔ دیکھا ہم مل کر ڈیل کر سکتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 1
قیدی کون تھے؟
چینی نژاد امریکی سکالر زیو وانگ کو اگست 2016 میں ایران سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ملک چھوڑ رہے تھے۔
انھیں ’غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ تعاون‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کے تعلیمی اداروں کے لیے ’انتہائی خفیہ مضامین‘ جمع کرنا چاہتے ہیں۔
جاسوسی کے الزام میں انھیں دس برس کی سزا سنائی گئی تھی۔
سٹیم سیل شعبے کے ماہر ایرانی سائنس دان مسعود سلیمانی کو گزشتہ برس اکتوبر میں شکاگو ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر حیاتاتی مواد ایران لے جانے کا الزام تھا جو کہ امریکہ کی ایران پر تجارتی پابندیوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔
تاہم زیو وانگ اور مسعود سلیمانی اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

،تصویر کا ذریعہJAVAD ZARIF TWITTER
تبادلے کا یہ عمل سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں مکمل ہوا۔ دونوں ممالک نے اپنے شہریوں کی رہائی میں ثالث کا کردار ادا کرنے پر سوئٹزرلینڈ حکومت کا شکریہ ادا کیا ہے۔
زیو وانگ سوئٹزرلینڈ حکومت کے ایک جہاز میں تہران سے زیورخ پہنچے جہاں سے انھیں جرمنی روانہ کیا گیا۔ گھر جانے سے قبل جرمنی میں ان کا میڈیکل چیک اپ کیا جائے گا۔ مسعود سلیمانی کو بھی پہلے زیورخ پہنچایا گیا جہاں سے وہ تہران روانہ ہوئے۔
ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے رہائی کے بعد مسعود سلیمانی کے ساتھ اپنی تصاویر بھی ٹویٹ کیں۔
اس خبر کا اعلان سب سے پہلے انھوں نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے کیا اور لکھا: ’خوشی ہے کہ پروفیسر مسعود سلیمانی اور زیو وانگ جلد ہی اپنے خاندانوں سے ملنے والے ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
X پوسٹ کا اختتام, 2
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک باضابطہ بیان میں کہا کہ مسٹر وانگ کو ’جاسوسی کے جھوٹے الزام‘ میں حراست میں رکھا گیا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ’ قید میں رکھے گئے امریکیوں کو رہا کرانا میری انتظامیہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور ہم بیرون ملک ناجائز طور پر قید میں رکھے گئے اپنے تمام شہریوں کو واپس لانے کے لیے سخت کوششیں جاری رکھیں گے۔‘
زیو وانگ کی اہلیہ ہوا قو نے ایک بیان میں کہا: ’ہمارا خاندان ایک بار پھر سے مکمل ہو گیا۔ ہمارے بیٹے اور میں نے تین سال تک اس دن کا انتظار کیا اور یہ الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے کہ ہم زیو سے دوبارہ ملنے کے بارے میں کتنا پرجوش ہیں۔‘

،تصویر کا ذریعہReuters
’ہم ان سب کا شکر گزار ہیں جنھوں نے ایسا کرنے میں مدد کی۔‘
پرنسٹن یونیورسٹی، جہاں زیو وانگ تعلیم حاصل کررہے تھے، نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان کی رہائی کی خبروں سے خوشی ہوئی ہے اور ہم ’کیمپس میں ان کا خیرمقدم‘ کرنے کے منتظر ہیں۔
امریکہ ایران تناؤ
گذشتہ دو برسوں میں امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے گذشتہ برس یکطرفہ طور پر ایران کے ساتھ جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے سنہ 2015 کے معاہدے سے خود کو علیحدہ کر لیا۔
تہران کا کہنا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے لیکن امریکہ اس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا ہے۔
ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے ایران کی کرنسی ریکارڈ حد تک گر گئی اور حال ہی میں ایران کو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر ایک بڑے احتجاج کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔













