شام میں ترکی کی فوجی کارروائی: ’شام سے نکلنے والے امریکی فوجیوں کو عراق میں تعینات کیا جائے گا‘

،تصویر کا ذریعہAFP
امریکہ کے وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے تصدیق کی ہے کہ شمالی شام سے نکلنے والے تمام امریکی فوجیوں کو متوقع طور پر مغربی عراق کے محاذ پر تعینات کیا جائے گا۔
وزیرِ دفاع نے ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایک ہزار کے لگ بھگ ان امریکی فوجیوں کی عراق میں تعیناتی کا مقصد وہاں پر نام نہاد تنظیم دولتِ اسلامیہ کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکنا ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ وہ شام میں تعینات فوجیوں کو وطن واپس بلا لیں گے۔
دریں اثنا کُرو جنگجوؤں کی ایک تنظیم کا کہنا ہے اس نے شمالی شام کے محصور قصبے راس العین سے اپنے تمام جنگجوؤں کو واپس بلا لیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ماہرین کے مطابق کُرد جنگجوؤں کی راس العین سے واپسی ترکی اور کُردوں کے درمیان حال ہی میں ہونے والی عارضی جنگ بندی کا نتیجہ ہے۔ کُردوں اور ترکی کے مابین عارضی جنگ بندی کی ڈیل امریکہ نے کروائی ہے۔
یاد رہے کہ شمالی شام سے امریکی فوج کے نکل جانے کے بعد ترکی کے لیے کُرد جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائیوں کا راستہ کھل گیا تھا۔
تاہم گذشتہ جمعرات کو ترکی نے پانچ دن کے لیے شمالی شام میں اپنے فوجی آپریشن کو یہ کہتے ہوئے معطل کیا تھا کہ اس عارضی جنگ بندی کا مقصد علاقے میں موجود سے کُرد جنگجوؤں کی اپنے علاقوں کو بحفاظت واپسی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ترکی کُرد جنگجوؤں کو دہشت گرد سمجھتا ہے اور شام کے اندر ایک محفوظ زون بنانے کا خواہاں ہے جہاں شامی پناہ گزینوں کو واپس بسایا جا سکے۔
اس معاہدے کے باوجود راس العین میں فائرنگ کاسلسلہ جاری ہے۔
عارضی جنگ بندی کا معاہدہ
اس سے قبل امریکہ نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ اس نے کُرد جنگجوؤں کو شمالی شام سے نکلنے کا موقع دینے کے لیے ترکی کے ساتھ پانچ روزہ جنگ بندی کا معاہدہ کیا ہے۔
یہ معاہدہ امریکی نائب صدر مائیک پینس اور ترک صدر رجب طیب اردوغان کے درمیان انقرہ ہونے والی ملاقات میں طے پایا تھا۔
دوسری جانب امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی اور دونوں جماعتوں ریبلکن اور ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے ارکانِ کانگریس پر مشتمل ایک گروپ شاہ عبداللہ سے مذاکرات کے لیے اردن پہنچ گیا ہے۔
نینسی پلوسی سمیت کئی سینیئر امریکی سیاستدان صدر ٹرمپ کے شمالی شام سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے اعلان پر شدید تنقید کر چکے ہیں۔
اردن کے دورے کے حوالے سے ایک بیان میں ہاؤس سپیکر نینسی پلوسی کا کہنا تھا ’شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے آنے والے بحران کے بعد ہمارے وفد نے نہایت اہم مذاکرات کیے ہیں جن میں اس بحران کے خطے کے استحکام پر اثرات، (شمالی شام) سے نکلنے والے مہاجرین میں اضافے کے علاوہ اس بحران کی وجہ سے دولت اسلامیہ، ایران اور روس کو جو خطرناک مواقع ملیں گے، ان پر بھی بات ہوئی ہے۔‘
امریکی فوجیوں کے بارے میں اعلان
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکیوں فوجیوں کو عراق بھیج کر ’عراق کا دفاغ‘ کرنے میں مدد کے علاوہ وہاں دولتِ اسلامیہ کو خود کو دوبارہ منظم کرنے سے روکنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا ’شمال مشرقی شام سے امریکہ کا انخلا بہت تیزی سے جاری ہے اور ہم (اب) مہینوں کی نہیں، ہفتوں کی بات کر رہے ہیں۔‘
’فی الحال منصوبہ یہ ہے کہ ان فوجیوں کو مغربی عراق بھیجا جائے گا۔‘
پینٹاگون کے ایک سینیئر اہلکار کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے فوجیوں کو عراق بھینجے کا منصوبہ بدل جائے ’لیکن اس وقت ہمارا یہی منصوبہ ہے۔‘
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے ایک ٹیوٹ بھی کی تھی (جسے بعد میں واپس لے لیا گیا) جس میں انھوں نے وزیرِ دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ شمالی شام میں جنگ بندی پر بہت اچھے طریقے سے عمل ہو رہا ہے۔

،تصویر کا ذریعہDavid Walker
اس سے پہلے ترکی اور کُرد افواج نے ایک دوسرے پر شمالی شام میں جاری عارضی جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔
سنیچر کو ترکی کی وزارتِ دفاع نے کُرد افواج پر 36 گھنٹوں کے دوران 14 'اشتعال انگیز' حملے کرنے کا الزام عائد کیا تھا تاہم ترکی کا اصرار تھا کہ ترک افواج اس معاہدے کی مکمل پاسداری کر رہی ہیں۔
دوسری جانب کُردوں کی زیرِ قیادت سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) نے ترکی پر جنگ بندی کے معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔
ایس ڈی ایف نے ترکی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ وہ محصور قصبے راس العین سے شہریوں اور زخمی افراد کے انخلا کے لیے محفوظ راہداری بنانے میں ناکام رہا ہے۔
ایس ڈی ایف نے سنیچر کو امریکی نائب صدر مائیک پینس پر زور دیا کہ وہ ترکی پر دباؤ ڈالیں کہ وہ عام شہریوں کو منتقل کرنے کی اجازت دے۔
ایک بیان میں ایس ڈی ایف نے کہا تھا کہ 'امریکی فریق کے ساتھ مستقل رابطے اور ان کی طرف سے اس مسئلے کو حل کرنے کے وعدے کے باوجود اس میں کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہو سکی ہے۔'











