ڈونلڈ ٹرمپ کی یوکرینی صدر کو فون کال: ’وائٹ ہاؤس نے تفصیلات چھپانے کی کوشش کی‘

ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر زیلینسکی

،تصویر کا ذریعہAFP

امریکہ میں صدر ٹرمپ کے خلاف ایک نئی شکایت میں کہا گیا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اعلی حکام نے صدر ٹرمپ اور یوکرین کے صدر کے درمیان ٹیلی فون پر ہونے والی بات چیت کی تفصیلات کو چھپا کر رکھنے کی کوشش کی ہے۔

صدر ٹرمپ نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کے ساتھ اپنی گفتگو میں اُن سے اپنے سیاسی مدِمقابل جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف تحقیقات کرنے کے بارے میں کہا تھا۔

صدر ٹرمپ کے خلاف نامعلوم سرکاری ملازم کی طرف سے جو شکایت کی گئی ہے اس کے متن سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ اور یوکرین کے صدر کے درمیان جو گفتگو ہوئی تھی اس کی تفصیلات کو اس کمپیوٹر میں نہیں رکھا گیا تھا جن پر عام طور پر سرکاری مواد رکھا جاتا ہے۔

اس کے بجائے اس ساری گفتگو کے متن کو ایک ایسے کمپیوٹر میں رکھا گیا جس میں خفیہ معلومات کو رکھا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکہ کے ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی کی سینیئر ترین رکن نینسی پلوسی نے منگل کو اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت رپبلکن جماعت کے صدر ٹرمپ کے خلاف اس شکایت کی بنا پر مواخذے کی کارروائی شروع کر رہی ہے جس میں کہا گیا تھا انھوں نے امریکہ کی اندرونی سیاست میں ایک دوسرے ملک کے صدر کو مداخلت کرنے کی دعوت دیتے ہوئے انھیں اپنے سیاسی مدِ مقابل جو بائیڈن کے خلاف تحقیقات کرنے کا کہا تھا۔

نینسی پلوسی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جو بائیڈن حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی کی طرف سے آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے خواہش مندوں میں اول نمبر پر ہے۔

صدر ٹرمپ نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جس وقت ان کی یوکرین کے صدر سے یہ گفتگو ہوئی اس وقت انھوں نے یوکرین کو چالیس کروڑ ڈالر کی فوجی امداد روک رکھی تھی لیکن انھوں اس تاثر کو رد کیا کہ یہ امداد اس لیے روک کر رکھی گئی تھی کہ یوکرین کو جو بائیڈن کے بیٹے کے خلاف تحقیقات شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

’وسل بلوئر‘ یعنی وہ سرکاری ملازم جس نے صدر ٹرمپ کے خلاف شکایت کی ہے اس کی شکایت کی تفصیل ایسے وقت سامنے آئی ہے جب ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس ایجنسی کمیٹی کے ارکان نے صدر ٹرمپ کے اعلی انٹیلی جنس اہلکار سے سوال و جواب کے لیے سماعت شروع کی۔

نیشنل انٹیلی جنس کے قائم مقام ڈائرکٹر جوزف میگوائر نے ابتدا میں اس شکایت سے کانگرس کو آگاہ کرنے سے اجتناب کیا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اپنے خلاف مواخذے کی کارروائی کو ’جھوٹی‘ اور ’الزام تراشی‘ قرار دیا ہے۔

شکایت میں کیا کہا گیا ہے؟

وسل بلوئر کی شکایت میں صدر ٹرمپ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ایک دوسرے ملک سے امریکہ میں سنہ 2020 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں مداخلت کرنے کا کہا۔

ڈونلڈ ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اب جو دستاویزات عام کی گئی ہیں ان میں کہا گیا ہے کہ صدر کی طرف سے جو کہا گیا ان میں دوسری باتوں کے علاوہ ایک غیر ملکی سربراہ پر دباو بھی ڈالا گیا کہ وہ امریکہ کی اندرونی سیاست میں صدر کے بڑے سیاسی مدمقابل کے خلاف تحقیقات کرے۔

اس شکایت میں صدر کے رویے کے بارے میں کہا گیا کہ یہ بڑے سنگین اور بے باک انداز میں قانون سے انحراف اور اس کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔

یہ مبینہ خلاف ورزی صدر ٹرمپ کی طرف سے یوکرین کے صدر کو اس سال 25 جولائی کو اپنی گفتگو میں یہ کہنے کے بارے میں ہے کہ وہ ان کے ساتھ یہ بھلائی کریں کہ جو بائیڈن کے خلاف بے بنیاد الزامات کی تحقیقات کریں۔

وسل بلوئر نے اپنی شکایت میں مزید کہا کہ انھیں کئی ذرائع سے علم ہوا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے اعلی حکام نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے ان کی شکایت کو چھپائے رکھا۔

وسل بلوئر نے اپنی شکایت میں مزید لکھا کہ انھیں ان اقدامات سے لگتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے حکام کی اس گفتگو کی سنگینی سے واقف تھے۔

وسل بلوئر نے یہ بھی کہا کہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ وائٹ ہاؤس کے حکام نے موجود انتظامیہ کے تحت ایسی معلومات جو سیاسی لحاظ سے حکومت کے لیے حساس نوعیت کی ہو اسے ایسے کمپیوٹروں میں رکھا گیا ہو جہاں قومی سلامتی کے لحاظ سے انتہائی حساس نوعیت کی معلومات کو رکھا جاتا ہے۔

جو بائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر بائیڈن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس شکایت میں یہ واضح کیا گیا کہ شکایت کرنے والے تمام چیزوں کو اپنی نظر سے نہیں دیکھا لیکن انھیں اپنے بہت سے باتیں اپنے انتہائی قابل اعتماد اور قابل اعتبار ساتھیوں سے پتہ چلی ہیں اور مختلف اہلکاروں سے پتہ چلنے والی زیادہ تر باتیں آپس میں مطابقت رکھتی ہیں۔

کانگرس میں کیا ہوا؟

ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین ایڈم شیف نے اس معاملے میں صدر کے خلاف سماعت شروع کی اور ابتدا ہی میں صدر ٹرمپ پر سنگین الزامات لگائے۔

لیکن ریپبلکن جماعت سے تعلق رکھنے والے رکن ڈیون نیوس نے کہا کہ وہ ڈیموکریٹ جماعت کے ارکان کو ان کی صدر کے خلاف خبروں کی جنگ میں نئی کارروائی شروع کرنے اور مرکزی داہرے کے ذرائع ابلاغ کے اداروں کو بھی اس میں الجھائے رکھنے کی غیر معمولی قابلیت پر مبارک باد دیں گے۔

کمیٹی کے چیئرمین نے میگوائر سے دریافت کیا کہ انھوں نے وسل بلوئر کی رپورٹ جاری کرنے سے پہلے ایوان صدر سے ہدایت کیوں طلب کی؟

قائم مقام ڈائریکٹر میگوائر نے کہا کہ انھیں وائٹ ہاؤس سے پوچھ لینا دانشمندانہ قدم لگا۔ انھوں نے کہا کہ وائٹ ہاوس سے اس لیے بھی پوچھا گیا کہ کہیں ان معلومات میں کوئی ایسی چیز تو شامل نہیں ہے جو انتظامیہ کے استحقاق میں آتی ہو۔

انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں ہر چیز ایسی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔

سوال و جواب کے دوران میگوائر نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کہ وسل بلوئر نے اچھی نیت سے یہ شکایت کی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ وسل بلوئر نے جو کچھ کیا وہ درست تھا اور ان کے خیال میں اس نے ہر قدم پر قانون کی پاسداری کی۔

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کال کی تفصیلات کیا ہے؟

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری تفصیلات کے مطابق جولائی میں ہونے والی اس آدھے گھنٹے کی فون کال میں ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کے صدر سے کہا کہ وہ جو بائیڈن کے بیٹے سے متعلق بدعنوانی کے دعووں کا جائزہ لیں۔

فون کال کی تفصیلات کے مطابق ٹرمپ نے یوکرین کے نو منتخب صدر ولادیمیر زیلینسکی سے سنہ 2016 میں ہٹائے جانے والے یوکرینی پراسیکیوٹر وکٹر شوکین کے بارے میں بات کی۔

امریکی صدر نے کہا ’میں نے سنا ہے کہ آپ کا ایک پراسیکیوٹر تھا جو بہت اچھا تھا اور اسے ہٹا دیا گیا، یہ بہت غیر منصفانہ ہے۔‘

’بہت سے لوگ اس بارے میں بات کر رہے ہیں کہ کس طرح آپ کے ایک اچھے پراسیکیوٹر کو فارغ کردیا گیا اور اس میں بہت سے برے لوگ ملوث ہیں۔‘

اپنی بات جاری کرتے ہوئے امریکی صدر نے یہ بھی کہا ’ایک اور بات یہ کہ جو بائیڈن کے بیٹے کے بارے میں بہت سی باتیں ہو رہی ہیں، یہ بھی کہ جو بائیڈن نے مقدمے کو روکا اور بہت سے لوگ اصل حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ اس لیے آپ امریکہ کے اٹارنی جنرل کے ساتھ مل کر جو کچھ بھی ممکن ہو کر سکتے ہیں، یہ بہت اچھا ہوگا۔‘

’جو بائیڈن اس بارے میں کہتے رہے ہیں کہ انھوں نے مقدمے کو روکا تو آپ اس معاملے کو دیکھ سکتے ہیں۔۔ یہ مجھے بہت خوفناک لگا۔‘

ڈونلڈ ٹرمپ کی اس بات کے جواب میں زیلینسکی کہتے ہیں ’ہم اس کا خیال رکھیں گے اور اس کیس کی تحقیقات پر کام کریں گے۔‘

امریکی صدر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے زیلینسکی انھیں بتاتے ہیں کہ امریکہ میں اپنے گذشتہ دورے کے دوران وہ نیویارک میں ٹرمپ ٹاور میں ٹھہرے تھے۔‘

اس فون کال میں امریکی صدر یوکرین کے صدر زیلینسکی کو اس معاملے پر امریکہ کے اٹارنی جنرل ولیم بر اور ٹرمپ کے ذاتی وکیل روڈلف جیولیانی کے ساتھ مل کر کام کرنے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔

تاہم محکمہ انصاف نے بدھ کے روز کہا ہے کہ ٹرمپ نے اٹارنی جنرل سے اس بارے میں بات نہیں کی اور نہ ہی مسٹر بار نے اس معاملے پر یوکرین کے ساتھ کوئی بات چیت کی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کا ماننا ہے کہ سنہ 2016 میں بطور امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے مسٹر شوکین کو برطرف کرنے کے لیے یوکرین سے لابنگ کی۔

کیا امریکی صدر کا مواخذہ ممکن ہے؟

امریکہ میں کسی صدر کے ’مواخذے‘ کا مطلب ہے کہ ان کے خلاف الزامات کانگرس میں لائے جائیں جو مقدمے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔ مواخذے کی کارروائی ایوانِ نمائندگان سے شروع ہوتی ہے اور اس کی منظوری کے لیے سادہ اکثریت درکار ہوتی ہے۔ اس کا مقدمہ سینیٹ میں چلتا ہے۔

اگرچہ ٹرمپ کے مواخذے کے لیے ڈیموکریٹس کی بھر پور حمایت حاصل ہے لیکن رپبلکن پارٹی کے کنٹرول والے سینیٹ سے اس کی منظوری کے امکان کم ہیں۔

آج تک صرف دو امریکی صدور کا مواخذہ ہوا ہے، جن میں بل کلنٹن (1998) اور اینڈریو جانسن (1868) شامل ہیں۔