یمن سعودی عرب: اقوام متحدہ کی جانب سے حوثی باغیوں کے سعودی عرب پر حملے نہ کرنے کی پیشکش کا خیرمقدم

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقوام متحدہ نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی جانب سے ایک امن پلان کے تحت سعودی عرب پر تمام حملوں کے خاتمے کی تجویز کا خیر مقدم کیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس تجویز سے ’جنگ کے خاتمے کی خواہش کا طاقتور پیغام‘ بھیجا جاسکتا ہے۔
یہ پیشکش حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب کی تیل تنصیبات کو ڈرون اور میزائل حملوں سے نشانہ بنانے کے ایک ہفتے بعد کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ حوثی باغیوں نے اس حملہ کی ذمہ داری قبول کی تھی، لیکن امریکہ اور سعودی عرب نے اس حملے میں ایران کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جبکہ تہران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔
واضح رہے کہ یمن کی خانہ جنگی میں ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار افراد ہلاک ہوئے ہیں جبکہ لاکھوں فاقہ کشی پر مجبور ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دنیا کے بدترین انسانی المیے نے جنم لیا ہے۔

،تصویر کا ذریعہReuters
سعودی عرب اور اس کے علاقائی اتحادیوں نے سنہ 2015 میں اس تنازعہ کو شدت سے بڑھایا تھا جب انھوں نے حوثیوں کے خلاف فضائی کارروائی کی تھی۔ حوثی باغیوں نے صدر عبدربوہ منصور ہادی کو معزول کر کے دارالحکومت صنعا پر قبضہ کر لیا تھا۔
حوثیوں نے خلیجی ریاست پر متعدد ڈرون، میزائل اور راکٹ حملے کیے ہیں۔
حوثی باغیوں کی پیشکش کیا ہے؟
ٹیلی ویژن پر کیے گئے ایک اعلان میں حوثی باغیوں کی سپریم کونسل کی سربراہ مہدی المشاہت نے کہا کہ وہ سعودی عرب پر تمام حملے ختم کر دیں گے بشرطیکہ سعودی حکومت اور اس کے اتحادی بھی ایسا کریں۔
ان کا کہنا تھا 'اگر ہماری پیش کش پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا تو ہمارے پاس واپس جانے اور اس کا جواب دینے کا حق محفوظ ہے۔'
انہوں نے یمن کے تمام فریقوں سے 'جامع قومی مفاہمت' کی جانب مل کر کام کرنے کا مطالبہ کیا۔
سنیچر کو یمن کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی مارٹن گریفیتھس نے حملوں کے روکے جانے اور سیاسی حل کے مطالبے کا خیرمقدم کیا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
ان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'خصوصی مندوب نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور تشدد کو کم کرنے کے لیے عسکری اضافے اور غیر مددگار بیانیے سمیت تمام ضروری اقدامات کے ساتھ آگے بڑھنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔'
سعودی ردِ عمل
اس سے قبل، سعودی عرب نے کہا ہے کہ وہ اپنی تیل تنصیبات پر حملے کا مناسب اور 'ضروری اقدامات' کے ساتھ جواب دے گا۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ریاض میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ایران کو تیل تنصیبات پر حملے میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان تنصیبات پر ایرانی ہتھیاروں سے حملے کیے گئے تھے اور وہ تحقیقات کے مکمل نتائج جاری کریں گے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو پورا یقین ہے کہ حملے یمن سے نہیں بلکہ شمال کی جانب سے کیے گئے تھے، تیل تنصیبات پر حملوں کے ذریعے عالمی توانائی کی سکیورٹی کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے متعلق سعودی عرب اپنے اتحادیوں سے مشاورت کر رہا ہے اور اس کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ضروری اور مناسب اقدامات کرے گا۔ تاہم انھوں نے ممکنہ اقدامات کی تفصیلات نہیں بتائیں۔
دوسری جانب، ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے اپنے ملک پر حملے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کسی بھی حملے کا نتیجہ حملہ آور کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے سعودی عرب کی دو بڑی تیل تنصیبات جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ ابقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں پر ڈرون اور میزائل حملوں کے بعد امریکہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی درخواست پر سعودی عرب میں اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔









