آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سعودی وزیر خارجہ: تیل تنصیبات پر حملے کا مناسب اور 'ضروری اقدامات' کے ساتھ جواب دیا جائے گا
سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تیل تنصیبات پر حملے کا مناسب اور 'ضروری اقدامات' کے ساتھ جواب دے گا۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ریاض میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر ایران کو تیل تنصیبات پر حملے میں ملوث قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان تنصیبات پر ایرانی ہتھیاروں سے حملے کیے گئے تھے اور وہ تحقیقات کے مکمل نتائج جاری کریں گے۔
جبکہ تہران نے اس حملے میں ملوث ہونے کے الزام کی تردید کی ہے۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو پورا یقین ہے کہ حملے یمن سے نہیں بلکہ شمال کی جانب سے کیے گئے تھے، تیل تنصیبات پر حملوں کے ذریعے عالمی توانائی کی سکیورٹی کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
عادل الجبیر کا کہنا تھا کہ ان حملوں سے متعلق سعودی عرب اپنے اتحادیوں سے مشاورت کر رہا ہے اور اس کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ضروری اور مناسب اقدامات کرے گا۔ تاہم انھوں نے ممکنہ اقدامات کی تفصیلات نہیں بتائی۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس سے قبل ایران کے پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ جنرل حسین سلامی نے اپنے ملک پر حملے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے کسی بھی حملے کا نتیجہ حملہ آور کی تباہی کی صورت میں نکلے گا۔
جنرل حسین سلامی کا یہ بیان گذشتہ ہفتے سعودی تیل تنصیبات پر حملے کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں فوجی بھیجنے کے واشنگٹن کے اعلان کے بعد سامنے آیا۔
یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے یمن کے ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی دو بڑی تیل تنصیبات جن میں آرامکو کمپنی کے بڑے آئل پروسیسنگ پلانٹ ابقیق اور مغربی آئل فیلڈ خریص شامل ہیں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ البتہ امریکہ اور سعودی عرب نے ان حملوں کی ذمہ داری ایران پر ڈالی ہے۔
اس سے قبل امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا تھا کہ سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملوں کے بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی درخواست پر امریکہ نے سعودی عرب میں اپنی افواج بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ ان فوجوں کی تعیناتی 'دفاعی نوعیت' کی ہو گی۔ فوجیوں کی مجموعی تعداد کے بارے میں حتمی فیصلہ فی الحال نہیں کیا گیا۔
پینٹاگون کا کیا کہنا ہے؟
یہ اعلان مارک ایسپر نے چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جنرل جوزف ڈنفورڈ کے ہمراہ جمعے کے روز کیا۔
اس موقع پر مارک ایسپر کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس حوالے سے مدد کی درخواست کی تھی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ان فورسز کی مدد سے دونوں ملکوں کے فضائی اور میزائل دفاعی نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور امریکہ انھیں ’دفاعی سامان فراہم کرنے میں تیزی‘ لائے گا۔
جنرل ڈنفورڈ نے فوجوں کی تعیناتی کو ’معتدل‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں نہیں ہو گی۔ تاہم انھوں نے فورسز کی قسم سے متعلق مزید معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق جب صحافیوں نے مارک ایسپر سے سوال کیا کہ کیا ایران پر فضائی حملے اب بھی زیرِ غور ہیں تو وزیر دفاع نے جواب دیا کہ ’ہم ابھی اس حد تک نہیں پہنچے۔‘
’ستمبر کے اختتام تک تیل کی پیداوار معمول پر آجائے گی‘
سعودی عرب میں تیل کی دو تنصیبات پر حملوں کے بعد اب ان کی بحالی کا کام جاری ہے۔
کمپنی کے چیف ایگزیکٹو امین نصیر نے اپنے عملے کو جاری کردہ ایک پیغام میں کہا ہے کہ ستمبر کے اختتام تک ان کی تیل کی پیداوار معمول پر آجائے گی۔
پیغام میں مزید کہا گیا کہ آرامکو گذشتہ ہفتے بقیق اور خریص کے حملوں کے بعد مزید مضبوط ہو کر ابھرا ہے، اور یہ کہ بحالی کے بعد تیل کی پیداوار حملے سے پہلی والی شکل میں آجائے گی۔
جمعے کو سعودی حکام کی جانب سے صحافیوں کو بقبق آئل فیکٹری اور خریص آئل فیلڈ لے جایا گیا تاکہ انھیں حملوں کے بعد ہونے والی تباہی اور بحالی کی سرگرمیاں دکھائی جا سکیں۔
یاد رہے کہ حملے کے فوراً بعد سعودی عرب کے وزیر توانائی نے کہا تھا کہ تیل کی تنصیبات پر حملوں سے خام تیل کی پیداوار میں 57 لاکھ بیرل فی دن کمی ہوئی ہے، جو ملک میں تیل کی نصف پیداوار ہے۔
سعودی عرب میں کیا ہوا تھا؟
ایک ہفتہ قبل، سعودی عرب میں ابقیق اور خریص کی آئل فیلڈز کو نشانہ بنایا گیا تھا جس کے باعث عالمی طور پر تیل کی رسد متاثر ہوئی تھی۔
بدھ کے روز، سعودی عرب کی وزارتِ دفاع نے ڈرونز اور کروز میزائلوں اور کے باقیات دکھاتے ہوئے ان حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم ایک ترجمان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب اب بھی ان ’حملوں کے لانچ پوائنٹ کی نشاندہی‘ پر کام کر رہا ہے۔
امریکہ کا بھی اس حوالے سے مؤقف یہی ہے کہ ان حملوں میں ایران ملوث ہے۔ سینیئر حکام نے امریکی میڈیا کو بتایا ہے کہ ان کہ پاس اس بات کے ثبوت ہیں کہ یہ حملے جنوبی ایران سے کیے گئے تھے۔
دوسری جانب ایران نے ان حملوں میں ملوث ہونے کے الزام کی بارہا تردید کی ہے اور صدر حسن روحانی نے ان حملوں کو ’یمن کے لوگوں‘ کی جانب سے جوابی کارروائی قرار دیا ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے حال ہی میں ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ ’امریکہ کسی غلط فہمی کا شکار ہے اگر وہ یہ سوچتا ہے کہ ساڑھے چار سال کے بدترین جنگی جرائم کے باوجود یمن کے متاثرہ افراد جوابی کارروائی نہیں کریں گے۔‘
بدھ کے روز امریکی وزیرِ خارجہ مائک پومپیو نے ان حملوں کو ’جنگی عمل‘ قرار دیا۔
تاہم ظریف نے ٹوئٹر پر کہا کہ ایران جنگ کا خواہاں نہیں ہے لیکن ’ہم اپنا دفاع کرنے میں ہچکچائیں گے نہیں۔‘
اس سب کا پسِ منظر کیا ہے؟
حوثی باغیوں نے اس سے قبل بھی راکٹس، میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعے سعودی عرب کی آبادیوں پر حملے کیے تھے۔ ان حوثی باغیوں کے یمن میں اقتدار میں موجود سعودی عرب کی حمایتِ یافتہ مخلوط حکومت کے ساتھ اختلافات ہیں جس کے صدر کو باغیوں نے مارچ 2015 میں اس وقت بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا جب یمنی تنازع میں
خطے میں ایران سعودی عرب کا حریف ہے جبکہ امریکہ کا مخالف ہے۔ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ نے ایران کے ساتھ ماضی میں اس کے پروگرام کو محدود کرنے سے متعلق کیے گئے معاہدے کو ترک کرنے کا اعلان کیا تھا۔
رواں برس امریکہ اور ایران کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔
امریکہ نے رواں برس خلیج میں مئی کے مہینے میں چار اور جون اور جولائی کے مہینوں میں دو آئل ٹینکرز پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری ایران پر عائد کی تھی۔ تہران نے دونوں مرتبہ میں ان الزامات کو مسترد کیا تھا۔