آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
اسرائیل میں انتخابات: نتن یاہو اور سابق آرمی چیف بینی گینٹز میں کانٹے کا مقابلہ، اتحادیوں سے مذاکرات شروع
اسرائیل میں عام انتخابات کے نتائج کے بارے میں رائے شماری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں بڑے امیدواروں کے درمیان فرق اتنا کم ہے کہ کسی کو واضح طور پر فاتح قرار نہیں دیا جا سکتا۔
وزیر اعظم نتن یاہو کی لیکود پارٹی کا سابق فوجی سربراہ بینی گینٹز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ لیکود پارٹی 30 سے 33 سیٹیں جیت سکتی ہے جبکہ بلیو اینڈ وائٹ پارٹی 32 سے 34 سیٹیوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔
وزیراعظم بننے کے لیے کسی بھی امیدوار کو کم از کم 61 سیٹوں سے برتری درکار ہوتی ہے۔ اسی لیے خیال کیا جاتا ہے کہ چھوٹی سیاسی جماعتوں کا آئندہ حکومت سازی میں بہت عمل دخل ہو گا۔
بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کے سربراہ بینی گینٹز نے اعلان کیا ہے کہ وہ دائیں بازو کی جماعت یسرائیل بیتینو کے رہنما ایوگڈور لیبرمین کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت بنائیں گے جبکہ نتن یاہو کا اس بات پر اصرار ہے کہ مکمل نتائج کے آنے کے بعد وہ ممکنہ اتحادیوں کے ساتھ مذاکرات شروع کریں گے اور ایک مضبوط سہونی حکومت بنانے میں کامیاب ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیلی ووٹرز پانچ ماہ میں دوسری بار عام انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ وزیر اعظم نتن یاہو نے اپریل میں ہونے والے انتخابات کے بعد حکومت سازی میں ناکامی کے باعث ملک میں دوبارہ عام انتخابات کا اعلان کیا تھا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
پچھلی بار کیا ہوا تھا؟
اپریل میں ہونے والے انتخابات میں نتن یاہو کی جماعت لیکود پارٹی اور بلیو اینڈ وائٹ کو 120 ممبران کے ایوان میں برابر 35، 35 نشستیں ملی تھیں۔
نتن یاہو نے اپنی فتح کا اعلان کیا اور امید کی جا رہی تھی کہ وہ جلد دائیں بازو کی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ مل کر کنیسٹ میں اکثریت حاصل کر لیں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور انھیں پانچ ماہ میں دوبارہ انتخابات کا اعلان کرنا پڑا۔
یورشلم میں بی بی سی کے نامہ نگار ٹام بیٹمین کے مطابق بظاہر تو جھگڑا ایک سیکولر اسرائیل اور اس کے ایک مذہبی اسرائیل کے مابین ہے لیکن نتن یاہو کے مسائل کی جڑ بدعنوانی اور دھوکہ دہی کے وہ الزامات ہیں جن کا انھیں سامنا ہے۔
نتن یاہو اپنے خلاف بدعنوانی کےالزامات کی تردید کرتے ہیں اور انھوں نے حکومت میں رہنے کے لیے پارلیمانی استثناء حاصل کرنے کے امکانات کو رد نہیں کیا ہے۔
نتن یاہو ووٹروں سے کیا کہہ رہے ہیں؟
اسرائیل کی تاریخ کے سب سے لمبے عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے نتن یاہو اس انتخابی مہم میں دائیں بازو کے ووٹروں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوششیں کرتے نظر آ رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے نتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ انتخابات میں کامیاب ہو گئے تو وہ اسرائیل کی حاکمیت کو وادی اردن اور یہودی بستیوں تک بڑھا دیں گے۔ اس اعلان کا مطلب یہ ہے کہ وہ مقبوضہ غرب اردن کا تیس فیصد حصہ اسرائیل میں شامل کر لیں گے۔
ایسا اقدام دائیں بازو کی جماعتوں میں بہت مقبول ہو گا جن کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہ کوشاں ہیں۔
فلسطینی اس اقدام کے سخت مخالف ہیں اور چاہتے ہیں کہ غرب اردن کا تمام علاقہ ایک دن ان کی ریاست کا حصہ ہو۔
نتن یاہو کے اس اعلان کی دنیا بھر میں بھی مذمت کی گئی ہے۔ فلسطین کی قیادت نے اسے ایک ایسا جنگی جرم قرار دیا ہے جس کے سرزد ہونے کے بعد مشرق وسطیٰ میں امن کے امکانات ختم ہو جائیں گے۔
نتن یاہو نے اپنے اس وعدے کا بھی ایک بار پھر اعادہ کیا کہ وہ غرب اردن کے علاقوں میں قائم یہودی بستیوں کو اسرائیل میں شریک کر لیں گے۔ عالمی قوانین کے تحت غرب اردن میں یہودی آبادیاں غیر قانونی ہیں۔ اسرائیل اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
نتین یاہو نے عبرانی اخبار ماریو میں لکھا: ’ہم یہودی لوگ تاریخی تبدیلی کے بالکل قریب ہیں۔ میں اسرائیل کی سرحدوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ ترین بنانے کے لیے آپ کا اعتماد چاہ رہا ہوں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیلی انتخابات کے اختتام کے فوراً بعد اسرائیل اور فلسطینوں کے مابین امن معاہدے کے منصوبے کا اعلان کریں گے۔
بینی گینٹز کیا وعدے کر رہے ہیں؟
نتن یاہو کا مقابلہ سابق جرنیلوں سے ہے جو کہہ رہے ہیں کہ وہ اقتدار میں آ کر سیاسی فوائد کے لیے معاشرے کو تقسیم نہیں کریں گے۔
سابق فوجی سربراہ بینی گینٹز اور سابق وزیر خزانہ یائر لیپڈ نے رواں برس فروری میں بلیو اینڈ وائٹ نامی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی جس نے اپنے پہلے ہی انتخابات میں حکمران جماعت لیکود پارٹی جتنی 35 نشستیں حاصل کیں۔
بینی گینٹز نے عبرانی اخبار ماریو میں چھپنے والے مضمون میں لکھا کہ ان کی فتح اسرائیلی جمہوریت کا رخ بدل دے گی۔
انھوں نے لکھا کہ وہ حکومت میں رہنے کے لیے معاشرے کو منقسم کرنے کے لیے لوگوں میں اشتعال پیدا کرنے کی پالیسی کا خاتمہ کریں گے اور وہ ایک ایسی اکثریتی حکومت بنائیں گے جس میں مخصوص گروہوں کو اپنے مفادات آگے بڑھانے کی اجازت نہیں ہو گی اور وہ ایک ایسی حکومت کی بنیاد رکھیں گے جو اسرائیل کی اکثریت کا خیال رکھے گی۔
یہ واضح نہیں ہے کہ بینی گینٹز کی مقبوضہ غرب اردن کے 30 فیصد حصے اور یہودی آبادیوں کو اسرائیل میں شریک کرنے کے حوالے سے کیا پالیسی ہے۔
انھوں نے یہ بھی نہیں واضح کیا کہ کیا وہ فلسطینی ریاست کے خیال کے حامی ہیں یا مخالف ۔ البتہ وہ غرب اردن کے علاقے سے اسرائیلی انخلا کے حق میں نہیں ہیں۔
اقتدار کی کنجی چھوٹی جماعتوں کے ہاتھ میں کیوں؟
تازہ انتخابی جائزوں کے مطابق کسی بھی جماعت کو واضح برتری حاصل نہیں ہے۔
تیس سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں لیکن ان میں ایک تہائی ایسی ہیں جو پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے تین اعشاریہ دو فیصد ووٹ حاصل کرنے کی شرط پر پورا اترنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی۔
انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل ایوگڈور لائبرمین ایک بار پھر حکومت سازی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ ایوگڈور لائیبرمین ایک وقت نتن یاہو کے اتحادی تھے لیکن اب ان کے حریف بن چکے ہیں۔
ایوگڈور لائبرمین نے اپریل میں انتخابات کے بعد نتن یاہو کی حکومت سازی کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا ۔ ان کا مذہبی جماعتوں کے ساتھ قدامت پسند یہودیوں کو ملٹری سروس سے استثنیٰ کا پرانا جھگڑا ہے۔
لائیبرمین نے کہا ہے کہ وہ اسی صورت میں نتن یاہو کو دوبارہ وزیر اعظم بننےمیں مدد کریں گے اگر وہ ایک سیکیولر مخلوط حکومت بناتے ہیں اور بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو اقتدار میں شریک کرتے ہیں۔ وزیر اعظم نتن یاہو نے اس امکان کو سرے سے رد کیا ہے۔
انتخابی نتائج کے سامنے آنے کے بعد کیا ہو گا؟
صدرِ اسرائیل ریوون ریولن اس سیاسی جماعت کے لیڈر کو حکومت سازی کی دعوت دیں گے جس کو 120 کے ایوان میں کم از کم 60 ممبران کی حمایت حاصل ہو گی۔
حکومت کی دعوت حاصل کرنے والے لیڈر کو 28 روز کےاندر اپنی اکثریت ثابت کرنی ہو گی۔ اٹھائیس روز کی مدت میں دو ہفتے کا اضافہ بھی ممکن ہے۔
اپریل میں ہونے والے انتخابات میں نتن یاہو کو حکومت سازی کی دعوت دی گئی لیکن وہ مقررہ وقت میں اپنی اکثریت ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ وزیر اعظم نتن یاہو نے نئے انتخابات کی کوشش کی جس کی ایوان کی اکثریت نے حمایت کی۔