ٹیکساس اور اوہایو میں فائرنگ: امریکہ میں 24 گھنٹوں کے دوران مسلح حملہ آورں نے 29 افراد کو ہلاک کر دیا

ڈیٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنڈیٹن، اوہایو میں ایک نائٹ کلب کے باہر فائرنگ کے واقعے میں کم از کم نو افراد ہوئے

امریکہ میں 24 گھنٹوں کے دوران فائرنگ کے دو واقعات میں 29 افراد کی ہلاکت کے بعد صدر ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’نفرت کی ہمارے ہاں کوئی جگہ نہیں‘ اور اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ان کی حکومت کو مسلح حملوں سے نمٹنے کے لیے ابھی مزید کام کرنا ہوگا۔

امریکی ریاستوں ٹیکساس اور اوہایو میں پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران ہونے والے حملوں میں افراد 42 زخمی بھی ہوئے ہیں۔

امریکہ میں عموماً خودکار ہتھیاروں کی مدد سے کیے جانے والے حملوں کے بعد نیشنل رائفل ایسوسی ایشن جیسی تنظیمیں امریکہ میں اسلحہ رکھنے کے حق کے دفاع کے لیے سر گرم ہو جاتی ہیں اور ’گن کنٹرول‘ یا اسلحے کی روک تھام کے حوالے سے بحث کی مخالفت کرتی ہیں۔

ٹرمپ نے کہا: ’ہمارے ملک میں یہ سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے اور ہم اس کا خاتمہ کریں گے۔‘

تاہم انھوں نے دونوں حملہ آوروں کے بارے میں کہا کہ وہ نفسیاتی مریض تھے۔

لیکن ناقدین کے مطابق ان حملوں کی ذمہ داری صدر ٹرمپ پر ہے کیونکہ وہ پناہ گزینوں اور میکسیکنز کے خلاف قابل اعتراض زبان استعمال کرتے ہیں اور خود کار اسلحے پر پابندی لگانے کی مخالفت کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنصدر ڈانلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم نے اس مسئلے پر کافی پیش رفت کی ہے، لیکن مسلح حملوں سے نمٹنے کے لیے ابھی مزید کام کرنا ہوگا‘

ڈیٹن، اوہایو کے نائٹ کلب پر حملہ

پولیس کے مطابق فائرنگ کا تازہ ترین واقعہ امریکی ریاست اوہایو کے شہر ڈیٹن میں سنیچر اور اتوار کی درمیانی شب تقریباً ایک بجے کے قریب پیش آیا۔

پولیس نے اب تک نو افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے جبکہ 16 افراد زخمی ہیں۔ اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں میں حملہ آور کی اپنی بہن بھی شامل ہے۔

یہ حملہ محض 30 سیکنڈ جاری رہا۔ کانر بیٹس نامی 24 سالہ حملہ آور نے ڈیٹن کے ایک مقامی نائٹ کلب کے باہر فائرنگ شروع کر دی، لیکن نزدیک موجود پولیس اہلکاروں نے اسے موقعے پر ہلاک کر دیا۔

پولیس کے مطابق حملہ آور کے مقاصد کے بارے میں تاحال علم نہیں ہو سکا اور اس حوالے سے تفتیش کا آغاز کردیا گیا ہے۔

X پوسٹ نظرانداز کریں, 1
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 1

ڈیٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنیچر اور اتوار کی درمیانی شب تقریباً ایک بجے کے قریب کانر بیٹس نامی 24 سالہ حملہ آور نے ڈیٹن کے ایک مقامی نائٹ کلب کے باہر فائرنگ شروع کر دی
ڈیٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنواقعے کے اگلے روز مقامی لوگوں نے متاثرین کے ساتھا اظہارِ یکجہتی کے لیے ریلی نکالی
ڈیٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنڈیٹن کے نائٹ کلب پر حملے میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 16 ہے
لائن

ایل پاسو، ٹیکساس کے وال مارٹ میں 20 ہلاکتیں

اس سے قبل ٹیکساس کے شہر ایل پاسو میں ایک شاپنگ مارٹ میں فائرنگ کے ایک واقعے میں 20 افراد ہلاک اور 26 زخمی ہوئے تھے۔

ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے اس واقعے کو ’ریاست کی تاریخ کے مہلک ترین دنوں میں سے ایک’ قرار دیا ہے۔

قتلِ عام کا یہ واقعہ سیلو وسٹا مال کے قریب وال مارٹ سٹور میں پیش آیا جو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے چند میل دور ہے۔

حملہ آور

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشنسی سی ٹی وی فوٹیج اور امریکی میڈیا میں نشر کیے جانے والے مناظر میں ایک خودکار بندوق پکڑے شخص کو گہرے رنگ کی ٹی شرٹ اور آنکھوں پر چشمے پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس شخص کی شناخت 21 سالہ پیٹرک کروسئس کے نام سے ہوئی ہے

حکام نے ایک 21 سالہ شخص کو حراست میں لیا ہے جس کے بارے میں خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ وہ واحد مسلح حملہ آور ہے۔

امریکی میڈیا میں اس شخص کی شناخت 21 سالہ پیٹرک کروسئس کے نام سے ہوئی ہے جسے ڈیلس کے قریبی شہر ایلن کا رہائشی بتایا جا رہا ہے۔ یہ شہر ایل پاسو سے 1046 کلومیٹر مشرق میں واقع ہے۔

سی سی ٹی وی فوٹیج اور امریکی میڈیا میں نشر کیے جانے والے مناظر میں ایک خودکار بندوق پکڑے شخص کو گہرے رنگ کی ٹی شرٹ اور آنکھوں پر چشمے پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

پولیس اور ایف بی آئی اس بات کی تحقیق کر رہے ہیں کہ آیا ایک آن لائن فورم پر پوسٹ کیا گیا سفید فام قوم پرست خیالات پر مبنی 'منشور' اسی حملہ آور کی جانب سے پوسٹ کیا گیا ہے۔

ٹیکساس

،تصویر کا ذریعہEPA

اس دستاویز میں تحریر ہے کہ اس حملے کا ہدف مقامی ہسپانوی برادری ہے۔

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کو ’بزدلانہ کارروائی’ قرار دیا ہے۔ انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’میں آج کے اس نفرت انگیز واقعے کی مذمت میں اس ملک کے ہر شہری کے ساتھ کھڑا ہوں۔ معصوم لوگوں کے قتل کی کوئی وجہ اور کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔’

اس وقت تک حملے کے متاثرین کے نام جاری نہیں کیے گئے ہیں مگر خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق میکسیکو کے صدر مینوئل لوپیز اوبرادور نے کہا ہے کہ ہلاک شدگان میں میکسیکو کے تین شہری شامل ہیں۔

ٹیکساس میں ہونے والے اس واقعے کو امریکہ کی حالیہ تاریخ کا آٹھواں مہلک ترین واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔

وال مارٹ، ٹیکساس
،تصویر کا کیپشنقتلِ عام کا یہ واقعہ سیلو وسٹا مال کے قریب وال مارٹ سٹور میں پیش آیا جو امریکہ اور میکسیکو کی سرحد سے چند میل دور ہے۔

ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ نے کہا ہے کہ ’ہم بحیثیت ریاست ان متاثرین اور ان کے کنبے کے افراد کی حمایت میں متحد ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا ہمیں آج ایک کام کرنا چاہیے، ایک کام کل اور اس کے بعد ہر روز، ہمیں متحد ہونا چاہیے۔

ہوا کیا؟

ایل پاسو پولیس کے سربراہ گریگ ایلن نے بتایا کہ ایک فعال شوٹر کی موجودگی کی اطلاعات مقامی وقت کے مطابق 10:39 بجے موصول ہوئیں اور قانون نافذ کرنے والے افسران چھ منٹ کے اندر جائے وقوع پر پہنچ چکے تھے۔

حملے کے وقت وال مارٹ سامان خریدنے والے خریداروں سے بھرا ہوا تھا۔

21 سالہ حملہ آور شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اس حملے پر گرفتار کیا جانے والا واحد شخص ہے اور اسے پکڑنے کے لیے افسروں نے اپنے ہتھیاروں سے فائر نہیں کیے تھے۔

وال مارٹ، ٹیکساس

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنخریدار خوف اور صدمے کی حالت میں سٹور سے باہر آ رہے ہیں

امریکی میڈیا کے مطابق وال مارٹ کے ملازمین اور عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ وال مارٹ میں افراتفری مچ گئی۔ خریدار اور ملازمین جان بچانے کی کوشش میں بھاگ رہے تھے۔

ایلن نے صورتحال کو 'خوفناک' قرار دیتے ہوئے کہا کہ متاثرین مختلف عمروں کے ہیں۔

ایل پاسو کے محکمہ پولیس کی جانب سے خون کی عطیات کی بھی اپیل کی گئی ہے۔

کیانا لونگ نامی ایک خاتون نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ وال مارٹ میں موجود تھیں جب انھوں نے فائرنگ کی آواز سنی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'لوگ افراتفری کا شکار تھے اور قاتل کی موجودگی کا بتاتے ہوئے بھاگ رہے تھے۔ لوگ فرش کے قریب ہو کر بھاگ رہے تھے اور فرش پر گر رہے تھے۔'

لونگ نے مزید بتایا کہ وہ اور ان کے شوہر دیگر خریداروں کے ساتھ پناہ لینے سے قبل سٹاک کے کمرے سے بھاگ کر گزرے تھے۔

ٹیکساس

،تصویر کا ذریعہEPA

،تصویر کا کیپشنکیانا لونگ (دائیں) فائرنگ کے وقت سٹور میں اپنے شوہر کے ساتھ موجود تھیں

ایک اور عینی شاہد گلینڈن اوکلے نے سی این این کو بتایا کہ وہ ایک قریبی شاپنگ مال میں ایک سپورٹس کے سامان کی دکان میں تھے جب ایک بچہ بھاگتا ہوا اندر آیا 'اور ہمیں بتایا کہ وال مارٹ کے اندر ایک شوٹر ہے۔'

اوکلے نے بتایا کہ کسی نے بھی بچے کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا مگر چند منٹ بعد ہی انھیں دو گولیوں کی آواز سنائی دی۔

وہ کہتے ہیں کہ 'میں نے صرف اس وقت وہاں سے بچوں کو باہر نکالنے کے بارے میں سوچا۔'

ردِ عمل کیا ہے؟

امریکہ میں فائرنگ کے اس تازہ ترین واقعے کے بعد جہاں ہمدردی کا اظہار کیا جا رہا ہے، وہیں اسلحے پر کنٹرول کے مطالبات بھی از سرِ نو دہرائے جا رہے ہیں۔

وال مارٹ نے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’وہ اس المناک واقعات پر صدمے میں ہیں‘ اور ’قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘

X پوسٹ نظرانداز کریں, 2
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام, 2

ایل پاسو کے میئر ڈی مارگو نے سی این این کو بتایا ’یہ ایک المیہ ہے جس کا ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ ایل پاسو میں ہو گا۔‘

ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار بیٹو او آرکی نے لاس ویگاس میں اپنی انتخابی مہم روک دی ہے اور وہ اپنے آبائی شہر ایل پاسو واپس چلے گئے ہیں۔

اس سے قبل محنت کشوں کے ایک فورم پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس قتلِ عام سے یہ فریب ختم ہوگیا ہے کہ امریکہ میں اسلحے سے متعلق اصلاحات 'خود بخود ہوجائیں گی۔'

دیگر ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں نے بھی اس قتلِ عام کی مذمت کرتے ہوئے گن کنٹرول کا مطالبہ کیا ہے۔

نیو جرسی کے سینیٹر کوری بُکر نے کہا کہ لگتا ہے کہ امریکہ 'اس تصور کو قبول کر چکا ہے کہ یہ [فائرنگ کے واقعات] معمول بنے رہیں گے۔'

مگر دوسری جانب ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پیکسٹن نے کہا ہے کہ گن کنٹرول شاید اس حملے کو نہ روک پاتا۔

انھوں نے کہا کہ اگر ایک 'جنونی' مسلح شخص ایسا کوئی حملہ کر دیتا ہے تو یہ کسی صورت ممکن نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکار وہاں اسے روکنے کے لیے موجود ہوں۔

سی بی ایس نیوز سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 'سب سے بہترین طریقہ خود کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہنا ہے۔'