آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
نوٹراڈام کیتھیڈرل کے تبرکات، نوادرات: کیا بچا کیا جل گیا؟
پیرس کے آٹھ سو پچاس سالہ پرانے نوٹراڈام کیتھیڈرل میں بھڑکنے والی آگ نے نہ صرف اس کے برج اور چھت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے، بلکہ پوری عمارت کے ڈھانچے کو بھی خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔
پیرس کے نائب میئر ایمانیوئیل گریگوری نے کہا ہے کہ آگ سے کیتھیڈرل کو بے تحاشا نقصان پہنچا ہے اور ایمرجسنی ادارے اس تاریخی عمارت میں آرٹ اور بیش قیمت نودارات کو بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
لکڑی سے بنا کیتھیڈرل کا اندرونی حصہ مکمل طور پرجل گیا ہے۔ گوتھک فن تعمیر کے ان نمونے کو پیرس کی تاریخی عمارتوں میں ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔
مورپنکھی کھڑکیاں
کیتھیڈرل کی تین مورپنکھی کھڑکیاں ہیں جو تیرہویں صدی میں بنائی گئی تھیں۔
سب سے چھوٹی مورپنکھی کھڑکی کیتھیڈرل کے مغربی چہرے میں قائم ہے جس پر 1225 میں کام مکمل ہوا تھا۔ جنوبی مورپنکھی 43 فٹ چوڑی ہے اور اس کے چوراسی پینل ہیں۔ البتہ اس کے اصلی رنگ دار شییشے آتشزدگی کے واقعے میں تباہ ہو چکے ہیں۔
کیتھیڈرل کے ترجمان آندرے فنو نے بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا ہے کہ آگ نے مورپنکھی کھڑکیوں کو متاثر نہیں کیا ہے۔ البتہ آگ سے عمارت کی مضبوطی کے بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔
دو برج
سیاحوں کا نوٹراڈام کیتھیڈرل کے شاندار برجوں کو دیکھنے کے لیے وہاں ٹھہر جانا معمول کی بات ہے۔
کیتھیڈرل کے مغربی برج پر سنہ 1200 میں کام شروع ہوا اور وہ برج چالیس برسوں میں مکمل ہوا۔ اس کا دوسرا برج دس برس میں مکمل کیا گیا۔
دونوں برج 387 فٹ بلند ہیں اور وہاں سے پورے پیرس کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ حکام کا کہنا کہ دونوں برجوں کی گھنٹیاں ابھی تک برقرار ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
گارگوئل اور گروٹیسک مجسمے
اگر کوئی خود کو جسمانی طور پر اتنا فٹ محسوس کرتا ہے کہ وہ میناروں کی سیڑھیاں چڑھ کر شہر کا نظارہ کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو اسے گارگوئل اور گروٹیسک کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا ہوتا ہے۔
یہ گروٹیسک اور گارگوئل کے مجسمے خیالی مخلوقات کے بارے میں ہیں۔ گروٹیسک مجسمے کے برعکس گارگوئل عمارت کا ایک پرنالہ ہے جو بارش کا پانی عمارت سے باہر لے کر جاتا ہے۔ البتہ پتھروں کے گھس جانے کی وجہ سے کئی ایسے پرنالوں کی جگہ پی وی سی پائپ لگ چکے ہیں۔
اس کیتھیڈرل کا سب سے مشہور مجسمہ ’سٹروگ‘ عمارت کے سب سے اوپر بیٹھ کر شہر کو دیکھ رہا ہے۔
چرچ کی گھنٹیاں
اس کیتھیڈرل میں دس گھنٹیاں ہیں اور ان میں سب بڑی گھنٹی ایمانیوئل کے نام سے جانی جاتی ہے جس کا وزن تئیس ٹن ہے۔
کیتھیڈرل نے 2013 میں اپنی 850ویں سالگرہ منائی جس کے دوران کیتھیڈرل کے شمالی ٹاور میں چھوٹی گھنٹوں کو پھر سے بنوایا گیا ہے۔
ان تمام گھنٹیوں نے ان توپ کے گولوں کی جگہ لی تھی جنھیں انقلاب فرانس کے دوران پگھلا دیا گیا تھا۔
رائٹر وکٹر ہوگو نے سنہ 1831 میں اپنی کتاب ’دی ہنچبیک آف نوٹراڈام‘ کا پلاٹ اسی کیتھیڈرل کو بنایا۔
اس کے بنیادی کردار کاسیمودو جس کی شکل سے مقامی لوگ ڈرتے ہیں وہ اس کیتھیڈرل میں پناہ لیتا ہے اور اسے وہاں گھنیٹاں بجانے والے کے طور پر ملازمت مل جاتی ہے۔
گوتھک برج
نوٹراڈام کیتھیڈرل کا مشہور برج جو پیر کے روز لگنے والی آگ میں تباہ ہو گیا بارہویں صدی میں بنایا گیا۔
وقت گذرنے کے ساتھ اس میں کئی تبدیلیاں ہوئیں۔ انقلاب فرانس کے دوران اسے توڑ دیا گیا تھا لیکن اسے سنہ 1860 میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
نوٹراڈام کیتھیڈرل برج کی تباہی پر رائل انسٹیٹوٹ آف برٹش آرکیٹیکٹ نے کہا: ’نوٹراڈام کیتھیڈرل کی چھت اور برج کے نقصان کا ازالہ مکمن نہیں اور اس سے فرنچ گوتھک فن تعمیر کو ایک شدید جھٹکا لگا ہے۔‘
تبرکات
نوٹراڈام کیتھیڈرل ’پیشن آف کرائسٹ‘ جیسے نادر نمونوں کا گھر ہے۔ پیشن آف کرائسٹ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہولی کراؤن آف تھورن کے کراس کا ایک ٹکڑا جو حضرت عیسیٰ نے صلیب پر چڑھنے سے پہلے پہن رکھا تھا۔
پیرس کی میئر اینے ہدالگو نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ فائر فائٹروں، پولیس اور دوسرے لوگوں نے بیش قیمت تاریخی نوادرات کو بچانے کے لیے ایک انسانی زنجیر بنائی۔
بی بی سی کے نامہ نگار کیون کنولی نے بتایا کہ فائر فائٹروں نے کہا ہے کہ کچھ پینٹنگز اتنی بھاری تھیں کہ انھیں بچانے کےلیے دیواروں سے اتارنا ممکن نہیں تھا۔
ارغن
نوٹراڈام کیتھیڈرل میں تین ارغن باجے ہیں جن میں ہزار پائیپوں والی ارغن بھی ہے جسے 1401 عیسوی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اسے اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دوبارہ تعمیر کیا گیا۔
اتنا وقت گذرنے کے باوجود نوٹراڈام کیتھیڈرل میں اب بھی قرون وسطیٰ کے زمانے کے پائپ ان ارغن میں موجود ہیں۔
پیرس کے ڈپٹی میئر ایمینوئل نے فرانسیسی نیوز چینل بی ایف ایم ٹی وی کو بتایا کہ بڑا ارغن مکمل طور پر محفوظ ہے۔
ارغنون نواز جوہان ویکسو نے ،جو آگ لگنے کا سائرن بجنے کے وقت ارغن بجا رہے تھے، بی بی سی ریڈیو فور ٹوڈے پروگرام کو بتایا کہ یہ ارغن دنیا کا سب سے مشہور موسیقی کا آلہ ہے۔ وہ بہت ہی شاندار اور خوبصورت ہے۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں اس کو بیان کرنے کے لیے۔ اسے بچانا میرے لیے ایک بہت ہی اعزاز کی بات ہے۔‘
۔