امریکہ نے غزہ اور اورغرب اردن کے فلسطینیوں کی امداد روک دی

امداد

،تصویر کا ذریعہAFP/GETTY

،تصویر کا کیپشنامریکہ کی طرف سے دیے جانے والا سالانہ چھ کروڑ ڈالرز کا فنڈ اب ختم کر دیا گیا ہے

امریکہ نے مقبوضہ غزہ اورغرب اردن میں فلسطینیوں کی تمام تر امداد روکنے کی تصدیق کر دی ہے۔ یہ اقدام انسداد دہشت گردی کے نئے قانون سے منسلک ہے۔

فلسطینی سکیورٹی سروسز کے لیے دیا جانے والا سالانہ چھ کروڑ ڈالرز کا فنڈ اب ختم کر دیا گیا ہے۔ جہاں اسرائیل پہلے ہی فلسطینیوں کے لیے کچھ امریکی امداد روکے جانے پر اس کی حمایت کر چکا ہے، وہیں بعض حکام نے اس نئے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کے خیال میں غرب اردن میں فلسطینیوں کا اسرائیلی فورسز کے ساتھ تعاون کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس تعاون سے غرب اردن میں امن قائم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

اینٹی ٹیررازم کلیریفیکیشن ایکٹ (اے ٹی سی اے) گذشتہ سال کانگریس کی جانب سے منظور کیا گیا اور پھر اسے صدر ٹرمپ کے دستخط سے قانون بنا دیا گیا تھا، اب اسے لاگو کیا جا رہا ہے۔

اس قانون کا استعمال کرتے ہوئے امریکی شہری ان عناصر کے خلاف امریکی عدالت میں ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں جو امریکی امداد بھی لیتے ہیں اور ان پر ’جنگی امور‘ میں ملوث ہونے کا بھی الزام ہے۔

فلسطینی اہلکار صائب اراکات نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی(پی اے) نے عدالتی کاروائی کے ڈر سے امریکی محکمہ خارجہ کو خط لکھ کر یہ گزارش کی ہے کہ کے وہ اپنی امداد بند کر دیں۔

انھوں نے کہا کہ:’ہم کوئی ایسا پیسہ وصول نہیں کرنا چاہتے جس کی وجہ سے ہمیں عدالت کا سامنا کرنا پڑے‘

پی اے نے عسکریت پسندوں کو حملے کرنے پر اشتعال دلانے کے اسرائیلی الزام کو مکمل طور پر مسترد کیا۔ ایراکات نے کہا: ’ہم کسی چیز کی تلاش میں نہیں ہیں، امریکہ نے اپنا فیصلہ کرلیا ہے لیکن ہم خطے میں دہشتگردی کے خلاف لڑائی میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت فلسطینی حدود میں کام کرنے والے تین بینکوں کے خلاف امریکی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ماضی میں بھی فلسطینی حملوں میں متاثر ہونے والے امریکیوں نے متعدد بار پی اے اور فلسطینی لبریشن آرگنائزیشن کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کیا تاہم یہ کوششیں قانونی دائرہ کار کی عدم موجودگی کی وجہ سے کامیاب نہ ہو سکیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے مطابق امریکی امداد رکنے سے ان کے سیکیورٹی اداروں کے کام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

غزہ اورغرب اردن میں یو ایس ایڈ کی تمام امداد بند ہو چکی ہے۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کے یہ بندش کب تک جاری رہے گی۔

تاہم ایک فلسطینی اہلکار نے یہ بتایا کہ اس وقت فلسطینی حدود میں یوایس ایڈ مشن کو بند کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیے جا رہے اور مستقبل میں یوروشلم میں امریکی سفارت خانے میں تعیناتیوں سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں لیا گیا۔

گزشتہ سال امریکہ نے کروڑوں ڈالر کی فلسطینی امداد روک دی تھی۔ اس میں یو ایس ایڈ کی معاونت میں دی جانے والی صحت، تعلیم اور تعمیراتی پراجیکٹس کی امداد بھی شامل تھی۔

رائے عامہ کے مطابق ان اقدامات کا مقصد فلسطین کو اسرائیل کے ساتھ امن مزاکرات اور امریکہ کے ساتھ دوبارہ بات چیت کرنے پر دباؤ دینے کا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین کی امداد کے لیے بنائی گئی خصوصی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے ( UNRWA) کی امریکی فنڈنگ بھی بند کر دی ہے۔ اس سے پہلے امریکہ اس کا سب سے بڑا ڈونر تھا۔ سال 2017 میں امریکہ نے یو این آر ڈبلیو اے کو 3 کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر سے زیادہ امداد دی تھی۔

حال ہی میں فلسطینی طالب علموں کے لیے امریکی حکومت کی طرف سے دیے جانے والے وظیفے بھی معطل کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے کئی فلسطینی اور غیر امریکی ملازم بے روزگار ہو چکے ہیں۔

رواں ہفتے برطرف ہونے والے ایک فلسطینی جو کہ یو ایس ایڈ کی معاونت سے چلنے والے امن و امان کے پروجیکٹ میں کام کرتے تھے نے یہ کہا کہ: ’ہمارا کام بہت اہم تھا اور ہم نے گہرا اثر چوڑا لیکن اب ہم بہت سارے پروجیکٹس ادھورے چھوڑ رہے ہیں۔’ہم فلسطینی پولیس اور پروسیکیوٹرز کی صلاحیت بڑھانے میں بہت مدد کر رہے تھے۔ہم ان کی روزمرہ کے کاموں اور تحقیقات میں مدد کر رہے تھے۔ یہ بہت بڑا نقصان ہے۔‘

سکیورٹی امداد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکہ نے 1993 میں اوسلو امن معاہدے کے موقع پر فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز بنانے کے لیے امداد شروع کی تھی

1933 کے اوسلو امن معاہدے کے بعد جب پی اے بنی تھی تب سے امریکہ پیشہ ورانہ فلسطینی سکیورٹی سروسز بنانے کی حمایت کر رہا ہے۔