چین، ایپل، ٹرمپ اور چار ایسے عناصر جو عالمی معیشت کو بدل کر رکھ دیں گے

جیف دیجاردنز کے خیال میں گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں انٹرنیٹ کی آمد وہ اہم موڑ تھا جس نے عالمی معیشت اور لوگوں کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔

دیجاردنز نے اس کتاب کی ادارت کی ہے جس میں دنیا میں وسیع پیمانے پر آنے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

دیجاردنز نے انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کا موازنہ نوکولس کاپرنیکس کی طرف سے پندرہویں صدی میں پیش کیے جانے والے اس نظریے سے کی ہے جس میں انھوں نے اس خیال کو چیلنج کیا تھا کہ ہماری دنیا اس کائنات کا مرکز ہے۔ انھوں نے کہا کہ انٹرنیٹ بھی اس نوعیت کی بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کا موجب بنا ہے۔

ٹیکنالوجی کے تغیر کو انسانی زندگی میں تبدیلی کا ایک اہم ترین ذریعہ تصور کیا جاتا ہے لیکن تبدیلی کے بہت سے دوسرے عوامل بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ لوگ، تجارتی طریقے، صارفین کی سوچ اور رویوں میں بدلاؤ اور عالمی اور علاقائی سیاست بھی۔

ہم نے سات ایسی چیزیوں کی نشاندہی کی ہے جو دیجاردنز اور ان کی ٹیم کے مطابق عالمی معیشت کا مستقبل بدل سکتی ہیں۔

1. ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کی یلغار

کئی دہائیوں تک دنیا کی بڑی کمپنیوں کی توجہ کا مرکز صنعتی سطح پر پیداوار تھا یا قدرتی وسائل کا حصول اور ان کا استعمال تھا۔ فورڈ، جنرل الیکٹرکس اور ایکسان ایسی ہی بڑی کمپنیاں تھیں۔

اس کے بعد مالیاتی، ٹیلی کمیونیکیشن اور ریٹیل کی کمپنیوں کا دور آیا۔

آج کے دور میں انفارمیشن کی بہت اہمیت ہے اور گزشتہ پانچ برسوں میں عالمی بازار حصص میں ٹیکنالوجی کی کمپنیاں ہی چھائی رہیں۔

سن 2018 کے پہلے تین ماہ میں ایپل، گوگل، مائیکروسافٹ، ایمزون اور ٹین سینٹ ایسی کمپنیاں تھیں۔ پانچ سال پہلے صرف ایپل پہلے پانچ میں آتی تھی۔

2. چین کی ترقی

چین کی اقتصادی ترقی کوئی انکشاف نہیں لیکن دیجاردنز نے اس کی اقتصادی ترقی اور ٹیکنالوجی میں پیشرفت کی مشترکہ رفتار کو اہمیت دی ہے۔

اس کے کچھ شہروں کی اقتصادی پیداوار دنیا کے کئی ممالک کی پیداوار سے زیادہ ہے۔

اس وقت چین کے 100 سے زیادہ شہروں کی آبادی دس ملین سے زیادہ ہے۔ ان شہروں نے اقتصادی میدان میں بھی اتنی تیزی سے ترقی کی ہے جس کی مثال نہیں ملتی۔

ایک اندازے کے مطابق چین سن 2030 تک دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے طور پر امریکہ کی جگہ لے لے گا۔

3. بڑے بڑے شہروں کا دور

دنیا میں صرف چین ہی ایک ملک نہیں جس کے شہر تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

اگلی چند دہائیوں میں شہری آبادی میں اضافہ دنیا کی معیشت کو متاثر کرے گا۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق چین اور بہت سے مغربی ممالک میں آبادی میں اضافے کی رفتار ایک سطح پر رہے گی جبکہ افریقہ اور ایشیائی ممالک میں شہروں میں بسنے کے رجحان اور آبادی میں اضافے میں تیزی دیکھنے میں آئے گی اور ’میگا سٹی‘ کی فہرست طویل ہو جائے گی۔

اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ برس دنیا کے سینتالیس شہروں کی آبادی دس ملین سے زیادہ تھی۔

اندازوں کے مطابق اس صدی کے آخر تک افریقہ کے تیرہ شہر نیو یارک سٹی سے بڑے ہوں گے۔

4. قرض میں اضافہ

جیف دیجاردنز کی میڈیا کمپنی ’ویژوول کیپیٹسلسٹ‘ کے مطابق اس وقت عالمی قرض 240 کھرب ڈالر ہے۔ جی ڈی پی کے مقابلے میں جاپان کا قرض 253 فیصد ہے جبکہ امریکہ کا قرض 105 فیصد ہے۔ چین، جاپان اور امریکہ کا قرض ملایا جائے تو عالمی قرض کا 58 فیصد بنتا ہے۔

امریکہ، یورپ اور نئی ترقی کرتی ہوئی معیشتوں نے گزشتہ چند برسوں میں شرح سود میں کمی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے قرض میں اضافہ کیا ہے لیکن یہ آئی ایم ایف کے ہدایت کے خلاف ہے۔

حکومتوں کو ہدایت دی جا رہے کہ وہ جلد سے جلد اچھے حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حالات ٹھیک کر لیں اور خسارے کو کم کریں تاکہ وہ اگلے مشکل دور کے لیے تیار ہوں جو کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ’ضرور آئے گا‘۔

5. تیزی سے ترقی کرتی ہوئی ٹیکنالوجی

جدید تاریخ میں ٹیکنالوجی میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں مثلاً گھریلوں استعمال کے لیے بجلی، ٹیلیفون، کار، جہاز وغیرہ۔ لیکن ان سب کے ایجاد سے عام لوگوں تک پہنچنے میں دہائیاں لگیں۔ امریکہ میں مثال کے طور پر مردم شماری سے حاصل کیے گئے ڈیٹا کے مطابق کاروں کو اسی برس لگے 90 فیصد لوگوں تک پہنچنے میں۔ انٹرنیٹ کو اتنے ہی لوگوں تک پہنچنے میں صرف 23 برس لگے۔ ٹیبلٹ 2010 میں صرف تین فیصد لوگوں کے پاس تھی جبکہ چھ سال کے اندر یہ 51 فیصد لوگوں کے پاس تھی۔ اب خیال کیا جا رہا کہ یہ مدت کم ہو کر چند ماہ رہ جائے گی۔

6. تجارتی رکاوٹیں

جنگ عظیم دوئم کے بعد دنیا میں حکومتوں نے تجاری رکاوٹیں کم کرنے کا عمل شروع کیا۔ لیکن اب آزاد تجارت کو امریکہ جیسے ممالک کی طرف سے چیلنج کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کی چین کے ساتھ تجاری جنگ شروع ہو چکی ہے۔ اب خیال ہے کہ آزاد تجارت کا سفر جاری بھی رہ سکتا ہے لیکن بصورت دیگر نئے ضوابط سامنے آئیں گے۔

7. سبز انقلاب

حالیہ برسوں میں دوبارہ استعمال ہونے والے ذرائع سے بجلی بنانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق سن 2050 تک دنیا کی 50 فیصد بجلی شمسی توانائی سے حاصل کی جائے گی۔

عالمی اداروں کا اندازہ ہے کہ آئندہ بیس برسوں میں اس طرح کے ذرائع سے بجلی حاصل کرنے کے لیے سرمایہ کاری سات کھرب ڈالر سے بڑھ جائے گی۔