جمال خاشقجی کے بیٹے صالح خاشقجی کی سفری پابندی کے خاتمے کے بعد امریکہ آمد

استنبول میں سعودی قونصل خانے میں قتل کیے جانے والے صحافی جمال خاشقجی کے بڑے بیٹے صالح خاشقجی سعودی حکام کی جانب سے سفر کی اجازت کے ملنے کے بعد امریکہ پہنچ گئے ہیں۔

صالح خاشقجی کے والد کی جانب سے سعودی قیادت پر تنقید کے باعث ان کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی عائد تھی۔

دو اکتوبر کو جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ہفتۂ رواں کے آغاز میں صالح خاشقجی کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلیمان کے ساتھ ریاض میں ہاتھ ملاتے ہوئے تصویر سامنے آئی تھی۔

اسی بارے میں مزید پڑھیے

واضح رہے کہ سعودی حکام نے جمعرات کو پہلی بار اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ استنبول میں جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی تین ہفتے پہلے کی گئی تھی۔

سعودی عرب کے ریاستی ٹی وی نے کہا ہے کہ سعودی عرب اور ترکی کی مشترکہ ٹاسک فورس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ جمال خاشقجی کے قتل کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔

ریاستی ٹی وی کا مزید کہنا ہے کہ سعودی عرب مشتبہ افراد سے تفتیش کر رہا ہے۔

سی آئی اے کی ڈائریکٹر کی صدر ٹرمپ کو بریفنگ

ادھر واشنگٹن میں امریکی انٹیلیجنس ایجنسی سی آئی اے کی ڈائریکٹر جینا ہیسپل نے صدر ٹرمپ کو صحافی جمال خاشقجی کو قتل کے حوالے سے اب تک کی جانے والی تحقیقات پر بریفنگ بھی دی ہے۔

جینا ہیسپل خاشقجی قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں گذشتہ ہفتے استنبول گئی تھیں اور اطلاعات کے مطابق وہاں انھیں سعودی قونصلیٹ میں جمال خاشقجی کے قتل کے وقت کی آڈیو ریکارڈنگ بھی سنوائی گئی۔

اطلاعات کے مطابق اس ریکارڈنگ میں جمال خاشقجی کے ساتھ تفتیش اور بعد میں قتل کرنے کے دوران ہونے والی گفتگو موجود ہے۔

سعودی انٹیلیجنس کی تنظیمِ نو

دوسری جانب سعودی خبر رساں ایجنسی سعودی پریس ایجنسی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد ملک کی انٹیلیجنس سروسز کی تنظیم نو کے لیے قائم کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کی ہے۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق کمیٹی نے اصلاحات کے منصوبے پر بات چیت کی۔ اس اجلاس میں جنرل انٹیلیجنس پریذیڈنسی کے تنظیمی ڈھانچے، موجود قانونی فریم ورک اور قواعد و ضوابط، پالیسیوں پر غور کیا گیا۔

انٹیلیجنس سروسز کی تنظیم نو کا فیصلہ 20 اکتوبر کو جمال خاشقجی کیے قتل کیے اعلان کے فوری بعد جاری کیے گئے شاہی فرمان میں کیا گیا تھا۔

اس شامی فرمان کے فوری بعد ایک اور شاہی فرمان جاری کیا گیا تھا جس میں متعدد اعلیٰ انٹیلیجنس حکام اور شاہی مشیران کو برطرف کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

محمد بن سلمان کا بیان

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدھ کو پہلی بار سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بارے میں براہ راست بیان دیتے ہوئے عہد کیا کہ اس جرم میں ملوث تمام 'مجرموں' کو سزا دی جائے گی۔

ریاض میں کاروباری شخصیات کے لیے منعقد کی گئی ’فیوچر انویسٹمینٹ انیشی ایٹو‘ نامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی ولی عہد نے کہا تھا کہ 'یہ جرم تمام سعودیوں کے لیے باعث تکلیف ہے لیکن وہ ترکی کے ساتھ کبھی بھی تعلقات خراب ہونے نہیں دیں گے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'یہ نہایت ہی گھناؤنا جرم ہے اور اس کی کوئی معافی نہیں ہے' اور ساتھ ساتھ عہد کیا کہ 'وہ تمام لوگ جو اس جرم میں ملوث ہیں ان سب کو سزا ملے گی اور انصاف کا بول بالا ہوگا۔'

ترکی سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ان سے روابط اچھے ہیں لیکن 'چند افراد ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن میرا ان کے لیے پیغام ہے کہ وہ ایسا کبھی نہیں کر سکیں گے۔'

دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں ہونے والے اس قتل کے حوالے سے سعودیوں نے مسلسل اس الزام کی تردید کی ہے کہ سعودی شہزادے کا اس میں کوئی عمل دخل تھا۔

حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ چند 'سرکش ایجنٹ' اس قتل کے ذمہ دار ہیں اور اس سلسلے میں دو اعلی افسران کو برخاست کر دیا گیا جبکہ 18 افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔

منگل کو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ترک پارلیمان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعودی حکومت کے ناقد جمال خاشقجی کا قتل سیاسی بنیادوں پر ہوا ہے جس کی بھرپور تیاری کی گئی تھی۔

33 سالہ محمد بن سلمان کو سعودی عرب کا حقیقی سربراہ سمجھا جاتا ہے اور ان کے حمایتیوں کا کہنا ہے کہ وہ قدامت پسند ملک کو جدید راہ پر گامزن کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن دوسری جانب ان کے ناقدین ان کو قطر اور یمن کے بحران کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اور جمال خاشقجی کے قتل کے بعد کئی نے مطالبہ کیا تھا کہ انھیں ہٹا دیا جائے۔