سعودی عرب: خاتون سمیت پانچ انسانی حقوق کے کارکنان کے لیے ’سزائے موت کی سفارش‘

،تصویر کا ذریعہGetty Images
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے اٹارنی جنرل ملک کے مشرقی صوبے میں قید انسانی حقوق کے پانچ کارکنوں کو سزائے موت دینے کی سفارش کریں گے۔
تنظیم کے مطابق ان پانچ کارکنان کے مقدمات دہشت گردی کی خفیہ ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہیں۔
تنظیم کے مطابق ان پانچ گرفتار کارکنان میں اسرا الغمغام نامی ایک خاتون بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کے مطابق اسرا الغمغام وہ پہلی خاتون ہوں گی جنھیں ممکنہ طور پر سزائے موت دی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ہیومن رائٹس واچ کی مشرق وسطیٰ کی ڈائریکٹر سارہ واٹسن نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرا الغمغام پر مظاہرین کو اشتعال دلانا اور فسادیوں کی اخلاقی حمایت کرنے کا الزام ہے۔
سارہ واٹسن کا کہنا ہے کہ ’سزائے موت شدید طور پر قابل نفرت ہے تاہم اسرا الغمغام جیسی کارکن کو پھانسی دینے کی سفارش کرنا جن پر پرتشدد کارروائی کا الزام بھی نہیں ہے سراسر ظلم ہے‘۔
خیال رہے کہ لندن میں قائم اے ایل کیو ایس ٹی نامی انسانی حقوق کے گروپ نے رواں ہفتے کے آغاز میں یہ خبر دی تھی۔

،تصویر کا ذریعہReuters
سعودی عرب کی حکومت کے ترجمان نے فوری طور پر تبصرہ کے لیے کی جانے والی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان پانچ کارکنوں کا مقدمہ چل رہا ہے۔ تاہم گروپ نے سعودی عرب کے سوشل میڈیا پر چلنے والے ان خبروں کی تردید کی ہے کہ ان پانچ کارکنوں کو پہلے ہی سزائے موت دی جا چکی ہے۔
سعودی عرب میں مظاہروں اور عوامی اجتماعات پر پابندی ہے تاہم سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ملک میں کچھ سوشل اور معاشی اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔
اقلیتی شیعہ آبادی
اسرا الغمغام ایرانی شیعہ مسلمان خاتون ہیں جنھوں نے 2011 میں سعودی عرب کے مشرقی صوبے میں کیے جانے والے مظاہروں کو تحریر میں لائی تھیں۔
اسرا الغمغام اور ان کے شوہر کو دسمبر سنہ 2015 میں گرفتار کیا گیا تھا۔

،تصویر کا ذریعہAFP
سعودی عرب میں شیعہ آبادی زیادہ تر تیل کی پیداوار کے مشہور مشرقی صوبے میں رہتی ہے اور ان میں بعض یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کی مذہبی تقریبات پر پابندی ہے یا سنی حکام ان کی مذہبی تقریبات میں مداخلت کرتے ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
خیال رہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورت حال کے حوالے سے سعودی عرب اور کینیڈا کے درمیان حالیہ دنوں کشیدگی دیکھنے میں اضافہ ہوا ہے۔
کینیڈا نے سعودی عرب میں انسانی حقوق کے کارکنوں کی گرفتاری پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے جواب میں سعودی عرب نے کینیڈا پر ملک کے داخلی معاملات میں 'مداخلت' کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کینیڈا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا جبکہ کینیڈا میں تعینات سعودی سفیر کو بھی واپس بلا لیا تھا۔
سعودی عرب نے کینیڈا کے سفیر کو ملک چھوڑنے کے حکم کے بعد سعودی ایئر لائن نے ٹورونٹو کے لیے تمام فلائٹس معطل کر دی تھیں۔
تاہم کینیڈا نے جواب میں کہا تھا کہ کینیڈا انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتا رہے گا۔










