شمالی کوریا کا ’جوہری اور میزائل تجربات‘ روکنے کا اعلان، عالمی سطح پر خیر مقدم

شمالی کوریا

،تصویر کا ذریعہAFP

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کی جانب سے میزائل تجربات کو ملتوی اور جوہری تجربات کے ایک مقام کو فوری طور پر بند کرنے کا اعلان کا بین الاقوامی سطح پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔

کم جونگ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ شمالی کوریا بتا چکا ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اس لیے اب مزید تجربات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

شمالی کوریا کی سینٹرل نیوز ایجنسی کے مطابق ’21 اپریل سے شمالی کوریا جوہری تجربات اور بین البراعظمی میزائلوں کے تجربات روک رہا ہے۔‘

شمالی کوریا کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق اس فیصلے کا مقصد ’معاشی ترقی کا حصول اور جزیرہ نما کوریا میں امن لانا ہے۔‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس اقدام کو دنیا کے لیے ’اچھی خبر‘ قرار دیا ہے جبکہ جنوبی کوریا کا کہنا ہے کہ یہ معنی خیز پیش رفت ہے۔

اسی بارے میں

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان آئندہ ہفتے جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان سے ملاقات کر رہے ہیں۔

X پوسٹ نظرانداز کریں
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام

عالمی رد عمل

یورپی یونین نے اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ ’مثبت‘ ہے لیکن اس نے ساتھ ہی مکمل تخفیف کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موغرینی کا کہنا ہے کہ ’کافی عرصے اس اقدام کے خواہاں تھے جسے قابل تصدیق اور مکمل تخفیف کی جانب بڑھنا چاہیے۔‘

اس بارے میں برطانوی حکومت نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ یہ اچھے مقاصد کے لیے مذاکرات کی جانب کوشش کی طرف اشارہ ہے۔‘

ادھر جنوبی کوریا کے اہم حمایتی ملک چین نے کہا ہے کہ اس کے خیال میں یہ اقدام ’جزیرہ نما کی صورتحال کو بہتر کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔‘

دوسری جانب روس کی وزارت خارجہ بھی اس اعلان کا خیرمقدم کیا لیکن ساتھ ہی امریکہ اور جنوبی کوریا سے کہا کہ وہ خطے میں اپنی فوجی سرگرمیاں کم کریں۔

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنشمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان آئندہ ہفتے جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان سے ملاقات کر رہے ہیں

اس سے پہلے جمعرات کو جنوبی کوریا کے صدر مون جے کے مطابق شمالی کوریا نے کہا ہے کہ وہ ’مکمل جوہری تخفیف‘کے لیے تیار ہے۔

انھوں نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کی ملاقات کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے جرات مندانہ تصور اور تخلیقی حل کی ضرورت ہے۔

خیال رہے کہ جعمرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اگر ان کی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے طےشدہ مذاکرات 'فائدہ مند' ثابت نہ ہوئے تو وہ بات چیت کے دوران ہی اٹھ کر چلے جائیں گے۔

فلوریڈا میں صدر ٹرمپ اور جاپان کے وزیراعظم شِنزو آبے کی مشترکہ نیوز کانفرنس میں دونوں رہنماؤں نے کہا کہ شمالی کوریا پر جوہری پروگرام کے خاتمے کا دباؤ برقرار رکھا جائے گا۔

صدر ٹرمپ نے مزید کہا تھا کہ شمالی کوریا پر اس وقت تک زیادہ سے زیادہ دباؤ کی مہم جاری رہے گی جب تک وہ جوہری اسلحے میں تخفیف نہیں کرتا۔

’جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ شمالی کوریا کے لیے ایک روشن راستہ موجود ہے جب یہ جوہری اسلحے میں تخفیف کرتا ہے جو ناقابل واپسی اور مکمل اور تصدیق شدہ ہو۔ ان کے لیے اور دنیا کے یہ بہت بڑا دن ہو گا۔‘

شمالی کوریا کا میزائل تجربہ

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنشمالی کوریا نے کچھ عرصہ قبل کئی میزائلوں کے تجربات کیے تھے

اس سے پہلے صدر ٹرمپ نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر مائیک پوم پےاو کے خفیہ دورے پر شمالی کوریا جانے اور وہاں کم جونگ ان سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مائیک پوم پےاو نے کم جونگ ان سے اچھے تعلقات استوار کر لیے تھے اور یہ ملاقات بہت اچھی رہی۔

حکام نے بتایا ہے کہ اس ملاقات کا مقصد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان ملاقات کی تفصیلات طے کرنا تھا۔

رواں ماہ کے شروع میں امریکی حکام نے بتایا تھا کہ شمالی کوریا نے وعدہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں وہ امریکہ سے اپنے جوہری ہتھیاروں اور ان کے مستقبل کے بارے میں بات کرے گا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کی ملاقات کی خبر مارچ میں سامنے آئی تھی اور وہ عالمی برادری کے لیے نہایت حیران کن تھی۔

واضح رہے کہ اس خبر کے آنے سے ایک سال قبل تک ان دونوں کے درمیان لفظی جنگ جاری تھی جس میں دونوں نے ایک دوسرے کی ذات پر حملے کیے اور دھمکیاں تک دی تھیں۔