شام: بمباری کا نشانہ مشرقی غوطہ

شام کے دارالحکومت دمشق کے باہر مشرقی صوبے غوطہ کے تمام علاقے زمیں بوس کر دیے گئے ہیں اور باغیوں کا قبضہ چھڑانے کے لیے کیے جانے والے حکومتی حملوں میں ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے ہیں۔
حکومت کے اتحادی روس کی جانب سے انسانی بنیادوں پر روزانہ چند گھنٹوں کے لیےجنگ روکنے کے حکم کے باوجود ان آبادیوں میں شہریوں کی ہلاکتوں کو سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور ہسپتال، سکول، دکانیں بھی فضائی اور زمینی بمباری کی زد میں ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریز نے کہا کہ وہاں لوگ 'دنیاوی جہنم' میں جی رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے سیٹلائٹ سے لی جانے والی تصاویر کے جائزے کے مطابق ایک علاقے میں دسمبر تک 93 فیصد عمارتوں یا تو مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھیں یا انھیں شدید نقصان پہنچا تھا۔
مغربی اضلاع پہلے ہی دسمبر تک تباہ کیے جا چکے تھے

جنوری اور فروری میں ہونے والی بمباری سے مزید نقصانات ہوئے ہیں


اس زرعی علاقے میں تقریباً چار لاکھ افراد آباد ہیں اور یہ دارالحکومت کے مضافات میں باغیوں کا آخری مضبوط گڑھ ہے۔
یہاں برطانیہ کے شہر مانچسٹر کے برابر کی آبادی ہے اور یہ سنہ 2013 سے محصور ہے لیکن گذشتہ نومبر میں حکومت اور باغیوں کے درمیان کشیدگی میں اضافے کے بعد سے وہاں انسانی حقوق کو بری طرح پامال کیا گیا ہے۔
یہ خانہ جنگی اپنے آٹھویں سال میں داخل ہو رہی ہے اور حالیہ بمباری شامی جنگ میں اب تک ہونے والی شدید ترین بمباری ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 18 فروری کے بعد وہاں 580 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں۔
اس کے سبب بنیادی شہری ڈھانچے اور سہولیات متاثر ہوئی ہیں۔ میکینزی انٹیلیجنس سروسز کی جانب سے سیٹلائٹ تصاویر کے تجزیے بتاتے ہیں کہ حرستا کے پڑوس میں جن ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے ان میں پانی کی ٹنکی بھی شامل ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
مشرقی غوطہ کے حرستا میں پانی کی ٹنکی کو نقصان پہنچا ہے

طرفین نے 27 فروری سے روزانہ کی بنیاد پر پانچ گھنٹے کی جنگ بندی کے حکم کی خلاف ورزی کے الزامات ایک دوسرے پر لگائے ہیں۔
ابھی تک کسی بھی شہری نے انسانی بنیادوں پر روس کے ذریعے فراہم کردہ راستے 'ہیومن کوریڈور' کو مشرقی غوطہ چھوڑنے کے لیے استعمال نہیں کیا ہے۔ دریں اثنا اقوام متحدہ اور ان کی شریک ایجنسیوں نے کہا ہے کہ ایسے حالات میں انسانی بنیادوں پر دیے جانے والے ضروری سامان کی فراہمی ناممکن ہے۔
اس علاقے میں کام کرنے والے ایک ڈاکٹر نے علاقے کے حالات کو 'قیامت خیز' کہا ہے کیونکہ وہاں کے شہریوں کو نہ تو کھانا میسر ہے اور نہ ہی دوا اور پناہ گاہیں میسر ہیں۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہسپتال، کلینک اور ایمبولینسز بھی حملوں کی زد میں آئے ہیں۔
مشرقی غوطہ کے زیادہ گنجان مغربی علاقے میں اقوام متحدہ نے دسمبر میں ایک سروے کروایا تھا جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ تقریباً 3853 مکانات پوری طرح تباہ ہو گئے ہیں، 5141 عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا ہے اور 3547 عمارتوں کو جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
جوبر

،تصویر کا ذریعہGetty Images
جن علاقوں تک رسائی ابھی ممکن ہے ان میں سب سے زیادہ نقصانات جوہر میں دیکھے گئے ہیں۔ دسمبر تک یہاں کی 93 فیصد عمارتوں کو نقصان پہنچا تھا یا وہ پوری طرح تباہ ہو گئی تھیں۔
کئی ماہ تک یہ علاقہ میدان کار زار بنا رہا اور شہری آبادی یہاں سے نقل مکانی کرچکی ہے۔ وہاں صرف مسلح گروپ بچے ہیں۔
جوبر سے راہ فرار اختیار کرنے والوں میں سے بہت سے لوگوں نے عین تمارا کو اپنا مسکن بنایا تھا جو کہ جون سنہ 2017 کے حکومتی حملے کا مرکز تھا۔
عین تمارا پر شیلنگ اور فضائی حملے میں اضافے کے سبب وہاں کے شہریوں اور بے گھر خاندانوں نے مشرقی غوطہ کے دوسرے حصوں کا رخ کیا۔
دسمبر تک اس علاقے کی 71 فیصد عمارتیں یا تو تباہ ہو گئيں تھیں یا پھر انھیں شدید نقصان پہنچا تھا۔ تصادم سے قبل کی 75 فیصد سے زیادہ آبادی وہاں سے راہ فرار اختیار کر چکی ہے۔
زملکا

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اقوام متحدہ کے تجزیے میں زملکا مشرقی غوطہ کا تیسرا سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والا علاقہ ہے۔ دسمبر تک اس علاقے کی تقریبا 59 فیصد عمارتیں یا تو تباہ ہو گئيں تھیں یا پھر انھیں شدید نقصان پہنچا ہے۔
یہاں دو سال سے نہ تو پانی کی فراہمی ہے اور نہ ہی بجلی کی سپلائی ہے اور یہاں کی 75 فیصد سے زیادہ آبادی نقل مکانی کر چکی ہے۔
فروری میں ہونے والی شدید بمباری کے نتیجے میں اس علاقے میں جان و مال کے مزید نقصانات ہوئے ہیں اور یہ طے ہے کہ دسمبر کی سطح سے زیادہ وہاں تباہی ہوئی ہے۔
حموریہ

،تصویر کا ذریعہAFP
مشرقی غوطہ میں حموریہ کے مرکزی محل وقوع کی وجہ سے یہاں دسمبر میں کیے جانے والے جائزے میں دوسرے علاقوں کے مقابلے میں نقصانات کم ہوئے تھے۔ یہاں کی تقریبا 11 فیصد عمارتیں یا تو تباہ ہو گئيں تھیں یا پھر انھیں شدید نقصان پہنچا ہے۔
بہر حال یہ علاقہ حالیہ بمباری کے دوران بار بار حملے کی زد میں آیا ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کو حاصل فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے الشفا ہسپتال کو بھی نقصان پہنچا ہے اور وہاں کے سٹاف کا کہنا ہے کہ اس پر فضائی اور توپ کے حملے ہوئے ہیں۔
ایک طبی کارکن کے طور پر شناخت کیے جانے والے ایک شخص نے کہا: 'کلنک ڈپارٹمنٹ بند ہے۔ کلینکل کیئر یونٹ ختم ہے، سرجری یونٹ ختم ہو چکا ہے، انکیوبیٹر یونٹ بھی بند ہے، بچوں کا شعبہ بھی ختم ہو گیا ہے اور ہسپتال کے تمام شعبے کی خدمات مکمل طور پر معطل ہیں۔'
حموریہ کے بیشتر رہائشی وہاں سے جا چکے ہیں اور موجودہ رہائشیوں میں سے نصف باہر سے آئے ہوئے ہیں۔ یہاں بجلی اور پانی کی فراہمی جون سنہ 2016 سے معطل ہے۔
سقبا

،تصویر کا ذریعہAFP
سقبا جو کہ ابھی تک اپنے پڑوسی علاقوں کو ہونے والے نقصانات سے بچا ہوا تھا وہ بھی فروری اور مارچ میں ہونے والے مسلسل حملوں کی زد میں آ گيا ہے۔
دسمبر تک اس کی تقریبا 27 فیصد عمارتیں یا تو تباہ ہو گئيں تھیں یا پھر انھیں شدید نقصان پہنچا تھا۔ اب اس اعداد و شمار میں ممکنہ طور پر اضافہ نظر آئے گا۔
اس کی نصف آبادی ان افراد پر مشتمل ہے جو پڑوس کے علاقوں سے بھاگ کر وہاں پہنچے ہیں۔ وہاں بھی پانی بجلی کی فراہمی بند ہے۔
کفر بطنا
کفربطنا کی 21 فیصد عمارتیں دسمبر میں کیے گئے جائزے کے مطابق یا تو تباہ ہو گئيں تھیں یا پھر انھیں شدید نقصان پہنچا تھا۔
حالیہ بمباری میں اس علاقے پر بھی حکومتی طیاروں نے بم برسائے ہیں۔ یہاں کئی لوگ ہلاک ہو گئے ہیں۔
دوما

،تصویر کا ذریعہAFP
دسمبر میں کیے جانے والے اقوام متحدہ کے جائزے میں ضلع کے سب سے بڑے شہر دوما کو شامل نہیں کیا گیا تھا۔ بہر حال یہ حالیہ شدید فضائی اور توپ کے حملوں کی زد میں آیا ہے۔
اپنے چار بچوں کے ساتھ ایک تہہ خانے میں پناہ گزین خاتون باسمہ عبداللہ نے روئٹرز کو بتایا: 'ہمیں آپ کی دعاؤں کی شدید ضرورت ہے۔'
دوما مشرقی غوطہ کا سب سے بڑا شہر ہے


دوما کے پاس البیرونی ہسپتال کی سیٹلائٹ تصاویر میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ پاس کی شاہراہ پر رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔
میکنزی انٹلیجنس سروسز کے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ہسپتال تک صرف ان ہی علاقوں سے رسائی ہے جو ابھی تک حکومت کے وفادار ہیں۔
دوما کے پاس البیرونی ہسپتال جانے کے راستے پر رکاوٹ

سیٹلائٹ تصاویر میں جنوب مغربی دوما میں ایک فوجی بیرک کے پاس حراستا کے مقام پر خندقیں کھدی ہوئی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا کہ ان خندقوں پر ممکنہ طور پر باغی جنگجوؤں کا قبضہ ہے اور اس کے ذریعے وہ کسی توپ کے گولے کی زد میں آنے سے محفوظ رہتے ہوئے علاقے میں نقل و حمل کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ ان دشمن کی نظروں سے بھی دور رہ سکتے ہیں جو توپ یا فضائی حملے کے لیے خبر پہنچا سکیں۔
انسانی بحران
امدادی کارکنوں نے بتایا کہ کس طرح ہزاروں کنبے اب تہہ خانوں اور زیر زمین پناہوں میں رہ رہے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو نہ پانی میسر ہے، نہ حفظان صحت کے انتظامات ہیں، نہ روشنی اور ہوا کا نظام ہے جس سے بیماری کے پھیلنے کی صورت میں بچے اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔
گذشتہ نومبر سے اب تک حکومت نے مشرقی غوطہ میں ایک امدادی قافلے کو جانے کی اجازت دی ہے اور وہاں اشیائے خوردنی کی سخت قلت ہے اور ان کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔
ایک روٹی کے پیکٹ کی قیمت ملکی اوسط سے 22 گنی زیادہ قیمت پر مل رہی ہے اور پانچ سال سے کم عمر کے تقریبا 12 فیصد بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ یہ شام میں جنگ کی ابتدا کے بعد سے سب سے زیادہ سطح ہے۔
شامی حکومت شہریوں کو نشانہ بنانے سے انکار کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ وہ مشرقی غوطہ کو 'دہشت گردوں' سے آزاد کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس نے جہادیوں اور باغیوں کے سرگرم گروپس کے لیے 'دہشت گرد' کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ان گروپس کا ان بستیوں میں تسلط ہے۔
پیشکش: لوسی روجرس، ایلیسن ٹروسڈیل اور مارک برائسن







