ترکی کی جانب سے جرمن ٹینک استعمال کرنے کی مخالفت

،تصویر کا ذریعہAFP/getty
شام میں کرد ملیشیا وائی پی جی کے خلاف جرمن ساختہ لیپرڈ ٹینک استعمال کرنے پر جرمنی کے سیاستدانوں نے تنقید کی ہے اور ترکی کو ہتھیاروں کی برآمد روکنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
سیاسی رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ اب ترکی کو جرمن ٹینک کی فروخت کے معاہدے کی کوششوں کو روکا جائے۔
ترکی نے سنیچر کو شمال مغربی شام میں کرد ملیشیا کے خلاف حملے کا آغاز کیا تھا۔
یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب چند ہفتے قبل ہی دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں باہمی تعلقات بہتر بنانے کے اعادہ کیا گیا تھا۔
نیٹو کے ان دونوں رکن ممالک کے تعلقات حالیہ برسوں میں کافی کشیدہ ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
جمعے کو منظر عام پر آنے والی خبروں کے مطابق جرمنی ترکی کی جانب سے اس درخواست پر پیش رفت کرنے والا ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ لیپرڈ ٹینک کو دھماکہ خیز مواد سے مزید محفوظ بنایا جائے۔
خیال ہے کہ یہ ٹینک پہلے شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے خلاف استعمال کیے گئے تھے۔ تاہم اب دفاعی ماہرین کے مطابق شام میں کرد ملیشیا کے خلاف ترکی کے حالیہ حملے کی تصاویر میں بھی ان ٹینکوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
جرمنی میں دائیں اور بائیں بازو دونوں ہی سیاستدانوں نے ترکی کو ٹیکنوں کی فروخت کے معاہدے میں توسیع کی مخالفت کی ہے اور حکومت سے کہا ہے کہ ترکی کی جانب سے عفرین پر حملے کے حوالے سے اپنی پوزیشن کی وضاحت کرے۔
جرمن چانسلر آنگیلا میرکل کی جماعت کرسچئن ڈیموکریٹک یونین کے رکن اور خارجہ امور کی پارلیمانی کمیٹی کے چیئرمین نوربرٹ روٹجن کا کہنا تھا کہ ’یہ بات مکمل طور پر واضح ہے کہ جرمنی کو مزید ہتھیار نہیں دینے چاہییں‘۔
بی بی سی ریڈیو فور کے ایک پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ترکی کے شام کے علاقوں میں حملے غیر قانونی اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ترکی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے یہ کام اپنے دفاع میں کیا ہے کیونکہ شام میں کرد فورسز نے ترکی پر کوئی حملہ نہیں کیا۔
اس موقعے پر انھوں نے امریکہ کی تعریف کی کہ اس نے ترکی کی حملے کی مخالفت کی۔
ان کا کہنا تھا ’امریکہ وہ واحد نیٹو اتحادی ہے جس پر واضح ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔ ہم اکثر ٹرمپ انتظامیہ پر تنقید کرتے ہیں لیکن اس معاملے میں وہ دوسروں سے زیادہ واضح اور باحوصلہ ہیں اور ہمیں ان کی تقلید کرنی چاہیے۔‘
جرمن وزیرِ خارجہ نے پیر کو کہا تھا کہ انھوں نے اپنے ترک ہم منصب کو فون کر کے عفرین حملے کے اثرات کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے منگل کو بتایا کہ اب تک عفرین حملے کی وجہ سے کم از کم 5000 افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔









