آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
میانمار میں ’شدت پسندوں‘ کا حملہ، سکیورٹی اہلکاروں سمیت 70 ہلاک
میانمار میں حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ریاست رخائن میں پولیس سٹیشنوں، سرحدی چوکیوں اور فوجی اڈوں پر روہنگیا شدت ہسندوں کے مربوط حملوں میں 70 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ریاست میں شدت پسندوں نے علی الصبح 20 سے زائد چوکیوں کو نشانہ بنایا۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایک روز قبل ہی رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر نسلی تناؤ کو ختم کرنے کے لیے کچھ نہ کیا گیا تو مزید لوگ انتہا پسندی کی جانب راغب ہو سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ ریاست رخائن میں تقریباً 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ بودھوں کی اکثریتی آبادی کے ساتھ کئی سالوں سے تناؤ جاری ہے جبکہ دسیوں ہزاروں روہنگیا بنگلہ دیش نقل مکانی کر چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان کی سربراہی میں ایک کمیشن نے حکومت سے روہنگیا مسلمانوں کو شہریت دینے کے لیے کوئی راستہ نکالنے کی درخواست کی تھی۔
کوفی عنان نے روہنگیا مسلمانوں کو ’دنیا کا سے بڑا بغیر ریاست کا گروپ‘ قرار دیا۔
حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بنگالی شدت پسند باغیوں نے پولیس سٹیشن پر ہاتھ سے بنے دھماکہ خیز بموں سے حملہ کیا اور کئی دیگر پولیس سٹیشنوں پر مربط حملہ کیا۔‘
میانمار کی حکومت روہنگیا کے لیے ’بنگالی‘ کا لفظ استعمال کرتی ہے کیونکہ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ بنگلہ دیش سے آنے والے غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
فوج کے سربراہ نے فیس بک پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’اس حملے میں 150 کے قریب شدت پسند ملوث تھے، اور اس حملے میں ان کے مطابق دس پولیس اہلکار اور 21 شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔
دوسری جانب بنگلہ دیش سرحدی محافظوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے بنگلہ دیش میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے تقریباً 150 روہنگیا کو واپس بھیجا۔
انھوں نے مزید کہا ہے کہ حملوں کے باعث انھوں نے بارڈر کی سکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔