مشرقی موصل میں بچے سکولوں کو لوٹ آئے

موصل عراق

،تصویر کا ذریعہUNICEF IRAQ/2017/ANMAR

،تصویر کا کیپشنعراق کے اہم شہر موصل کے مشرقی علاقوں میں حکومتی کنٹرول کے بعد سکول دوبارہ کھلنے شروع ہو گئے ہیں

عراق کے شہر موصل کے مشرقی علاقوں پر حکومتی کنٹرول آنے کے بعد ہزاروں بچے ایک بار پھر سکول جانے لگے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق مشرقی علاقوں کو نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ سے خالی کروا لیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے نے بتایا ہے کہ اتوار کو 30 سکول دوبارہ کھل گئے ہیں جن میں 16 ہزار بچوں نے دولتِ اسلامیہ کے دور اقتدار کے بعد پھر سے اپنی تعلیم شروع کر دی ہے۔

عراق کے وزیر اعظم حیدر العبادی نے اعلان کیا ہے کہ شہر کا مشرقی علاقہ اب پوری طرح دولت اسلامیہ سے پاک ہے۔

بہر حال منگل کو شہر کے مشرقی ضلعے میں خونریز جنگ کی اطلاعات بھی ہیں۔ خبررساں ادارے روئٹرز کی جاری کردہ تصاویر میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ عراقی فوجی انتصار ضلعے میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کی لاشوں کی جانچ کر رہے ہیں۔

موصل عراق

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنموصل کے مشرقی ضلع میں خونریز جنگ کی اطلاعات ہیں

عراقی فوج کا کہنا ہے کہ انھوں نے مزید شمال یعنی دریائے دجلہ کے مشرق میں رشیدیہ ضلعے کو بھی آزاد کروا لیا ہے۔ اس کے علاوہ حدیثہ اور جرف الملح قصبوں کو بھی اپنے کنٹرول میں لے لیا ہے۔

خیال رہے کہ عراقی حکومت کے زیر قیادت افواج نے موصل میں گذشتہ سال اکتوبر میں آپریشن کا آغاز کیا تھا۔ عراق میں یہ دولتِ اسلامیہ کا آخری مضبوط گڑھ ہے جبکہ شام میں اس کے کئی مضبوط گڑھ ابھی بھی موجود ہیں۔

اطلاعات کے مطابق آنے والے ہفتے میں مزید 40 سکولوں کو از سر نو شروع کرنے کا امکان ہے۔

دولت اسلامیہ اپنے انتہا پسند نظریات بچوں کو سکھانے کے لیے سکولوں کا استعمال کرتی ہے۔ بچوں کو ایک سخت نصاب میں قید رکھا جاتا ہے جہاں ڈرائنگ، تاریخ، فلسفہ، سماجی علوم کی کوئی جگہ نہیں کیونکہ دولت اسلامیہ کے مطابق یہ ’لادینیت کے طریقۂ کار‘ ہیں۔ اس کی جگہ وہ انھیں قرآن مجید کے حافظے اور جہادی تربیت پر زور دیتے ہیں جن میں اسلحے چلانا اور مارشل آرٹ شامل ہیں۔

موصل سکول

،تصویر کا ذریعہUNICEF IRAQ/2017/ANMAR

،تصویر کا کیپشن30 سکول کھل چکے ہیں اور مزید 40 کے کھلنے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے ہیں

ادھر دوسری جانب موصل میں لڑکیوں کی تعلیم پر تقریباً پابندی ہے اور انھیں پردے میں رہنے، کھانا پکانے، صاف صفائی کرنے اور اپنے خاوند کا ہاتھ بٹانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔

یونیسیف کا کہنا ہے کہ وہ سابق جنگ زدہ علاقے میں سکولوں کو از سر نو شروع کرنے، ان کی بحالی کرنے اور سامان فراہم کرنے میں حکومت کی امداد کر رہا ہے۔ بہت سے سکولوں کی عمارتوں کو اس دوران فوجی مقاصد کے لیے استعمال میں لایا گیا جس کے سبب وہ بری طرح مخدوش ہیں۔

موصل سکول

،تصویر کا ذریعہUNICEF IRAQ/2017/ANMAR

،تصویر کا کیپشنموصل میں دولت اسلامیہ کے خلاف حکومت کی پیش رفت کے نتیجے میں ہزاروں افراد شہر سے نکل بھاگے تھے جن میں بچے بھی شامل ہیں اور وہ خیموں میں رہ رہے ہیں

تقریباً سوا ایک لاکھ بچوں کی تعلیم کے لیے مشرقی موصل میں سامان فراہم کیا گیا ہے اور یونیسیف اساتذہ کو از سر نو تربیت دینے میں لگی ہوئی تاکہ بچوں کو تیزی سے تعلیم دینے کے پروگرام پر عمل ہو اور ان میں تشدد کے خلاف بیداری پیدا ہو۔

عراق میں یونیسیف کے نمائندے پیٹر ہاکنس نے کہا ’دو سال کے ڈراؤنے خواب کے بعد یہ موصل کے بچوں کے لیے اہم وقت ہے کہ انھیں ان کی تعلیم کا حق واپس ملے اور بہتر مستقبل کی ان میں امید جگے۔ ‘