سیاہ و سفید فام کی خلیج اور امریکہ کا صدارتی انتخاب

ہلیری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشندونوں امیدواروں کے درمیان مقابلہ سخت ہے
    • مصنف, برجیش اپادھیائے
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، واشنگٹن

حال ہی میں جاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ کے 89 فیصد سیاہ فام ووٹروں کا کہنا ہے کہ وہ ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیں گے جبکہ 84 فیصد کا خیال ہے کہ رپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نسل پرست ہیں۔ لیکن بہت سی رپورٹس میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سیاہ فام ووٹرز اس جوش و خروش کے ساتھ باہر نہیں نکل رہے ہیں جس طرح وہ براک اوباما کے لیے سنہ 2008 اور 2012 میں نکلے تھے۔ امریکی صدارتی الیکشن پر ہماری سیریز کی یہ تیسری کڑی امریکہ میں آج بھی سیاہ اور سفید فام کی خلیج اور صدارتی انتخاب پر اس کے اثرات کے بارے میں ہے۔

________________________________________________________________________________

امریکی شہر بفیلو کے دوسرے سب سے قدیم شراب خانے کے مالک ٹم والس کا بزنس کافی اچھا ہے، شراب خانے میں بھیڑ کافی ہوتی ہے لیکن وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو امریکہ کے موجودہ حالات سے خاصے ناراض نظر آتے ہیں۔

جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا بزنس تو کافی اچھا چل رہا ہے، آپ کو کس بات سے سب سے زیادہ ناراض ہیں، تو ان کے جواب نے مجھے ایک لمحے کے لیے سکتے میں ڈال دیا۔

انھوں نے صدر اوباما کے لیے ایک بھدی گالی کے ساتھ سیاہ فام لوگوں کے لیے انتہائی اشتعال انگیز لفظ استعمال کیا اور پھر کہا: 'وائٹ ہاؤس اس سیاہ فام صدر کے لیے نہیں ہے۔'

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنامریکہ میں ایک بار پھر سے نسلی امتیازات پر بحث گرم ہے

آٹھ سال قبل جب میں اوباما کے پہلے تاریخی انتخابات کی رپورٹنگ کر رہا تھا، تو سفید فام ووٹروں کو میں کئی بار یہ کہتے سنا تھا کہ 'اوباما محب وطن نہیں ہیں'، 'وہ مسلمان ہیں'، وغیرہ-وغیرہ۔

لیکن آٹھ سال بعد بھی اوباما کے متعلق سفید فام ووٹرز میں جس طرح کا غصہ پایا جاتا ہے وہ کافی حد تک نسلی امتیازات کے سبب منقسم امریکہ کی کہانی کا غماز ہے۔

بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما کے ابتدائی دنوں میں ان کے امریکی ہونے پر سوال اٹھایا اور پھر اس انتخابی مہم کے دوران بھی ان باتوں کو ہوا دے کر اس خلیج کو مزید وسیع کیا ہے۔

افریقی امریکی نژاد کرس براؤن کلیولینڈ کی ایک لانڈری میں کام کرتے ہیں۔ وہ جہاں رہتے ہیں وہ پورا علاقہ سیاہ فام لوگوں پر مبنی ہے اور یہ علاقہ کافی پسماندہ ہے اور یہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے۔

وہ کہتے ہیں: 'زیادہ تر لوگ ٹرمپ کو نسل پرست مانتے ہیں اور یہ طے کر چکے ہیں کہ انھیں ووٹ نہیں دیں گے، لیکن یہ طے نہیں کر پائے ہیں کہ ہلیری کے لیے ووٹ ڈالنے نکلیں بھی یا نہیں۔'

اوباما

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسیاہ فام ووٹروں میں ابھی بھی اوباما کی مقبولیت بہت زیادہ ہے

انھوں نے کہا: 'جب اوباما کے آٹھ سالوں میں ہمارے حالات نہیں بدلے، تو ہلیری سے کیا توقع کریں۔' تاہم ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رپبلكن کانگریس نے اوباما کو کچھ بھی کرنے نہیں دیا۔

ہلیری کلنٹن کے لیے یہ ووٹ اہم ہیں اور کبھی اوباما تو کبھی مشیل اوباما کو ان علاقوں میں بھیج کر وہ جوش پیدا کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تازہ جائزوں کے مطابق اب بھی 90 فیصد سیاہ فام ووٹرز اوباما کے لیے بہتر رائے رکھتے ہیں۔

گذشتہ دو سالوں میں پولیس والوں کے ہاتھوں بہت سے سیاہ نوجوانوں کی موت نے بھی نسل پرستی کی بحث کو انتخابی مسئلہ بنایا ہے۔

ٹرمپ نے اسے نسل پرستی کی جگہ قانون اور امن و امان کا مسئلہ قرار دیا ہے اور خود کو 'لاء اینڈ آرڈر امیدوار' کے طور پر پیش کرتے ہوئے پولیس کو اپنا مکمل تعاون دینے کا وعدہ کیا ہے۔

مزوری ریاست کے شہر فرگوسن میں ایک سیاہ نوجوان مائیکل براؤن کی پولیس کے ہاتھوں موت کی بات 'بلیک لائیوز میٹرز' یعنی سیاہ فام کی زندگی اہمیت رکھتی ہے نامی تحریک نے زور پکڑا تھا وہاں ٹرمپ کی یہ بات لوگوں کو کافی ناگوار گزر رہی ہے۔

جس سڑک پر مائیکل براؤن کو گولی ماری گئی، اسی جگہ کی رہنے والی ایک سیاہ فام خاتون نے اپنا نام بتائے بغیر کہا کہ ٹرمپ کی باتیں جیسے نسل پرستی کو دوبارہ مرکزی دھارے میں لے آئی ہیں۔

پولیس اور سیاہ فام

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنگذشتہ دنوں میں امریکی پولیس کے ہاتھوں کئی غیر مسلح سیاہ فام باشندوں کی ہلاکتوں سے مختلف امریکی شہروں میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا

وہ کہتی ہیں: 'یہاں ڈھنگ کے سکول نہیں ہیں، روزگار نہیں ہے اور پولیس ہر سیاہ فام نوجوان کو مجرم کے طور پر دیکھتی ہے۔ ٹرمپ نے اسی سوچ کو اور مضبوط کیا ہے۔'

ویران مکان، بند سکول، بے روزگاری، منشیات یہ سب جیسے بہت سے سیاہ فام علاقوں کی شناخت بن گئے ہیں۔

برسوں سے ڈیموکریٹس ان کی حالت بہتر کرنے کا دعویٰ کرتے آئے ہیں لیکن اصلاح یا تو بالکل نہیں ہے یا پھر اس کی رفتار اتنی سست ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا۔

ٹرمپ اب ان سے کہہ رہے ہیں سیاہ فام ووٹروں کو ان کی طرف آنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس 'کھونے کو کچھ بھی نہیں ہے' اور ٹرمپ کے راج میں حالات بہتر ہی ہو سکتے ہیں، بدتر نہیں۔

ہلیری کلنٹن کے شوہر بل کلنٹن کی حکومت کے دوران سیاہ فام لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوئے تھے اور ہیلری اسی دور کو واپس لانے کا وعدہ کر رہی ہیں۔

کئی ریاستوں میں سیاہ فام ووٹرز جیت اور ہار کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ سیاہ فام ووٹرز اگر ووٹ ڈالنے نہیں نکلتے ہیں تو اس کا سیدھا فائدہ ٹرمپ کو ہوگا اور ہیلری کلنٹن کی ٹیم یہ پیغام ان ووٹروں تک پہنچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔

آٹھ سال پہلے وائٹ ہاؤس میں پہلے سیاہ فام صدر کے پہنچنے کے بعد کچھ لوگوں نے یہ امید ظاہر کی تھی کہ امریکہ نے شاید نسل پرستی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے لیکن سنہ 2016 کے امریکہ کی تصویر اس امید سے مطابقت نہیں رکھتی۔