اوپیک: تیل کی قیمتوں کی سیاست

    • مصنف, اینڈریو والکر
    • عہدہ, بی بی سی نیوز، معاشی نامہ نگار

دنیا میں تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ پر براجمان ہوگئی ہے۔

شاید ایسا ہی ہے۔ الجزائر میں ہونے والے اجلاس میں جب اس نے پیداوار میں کمی پر اتفاق کیا تو یہ فیصلہ منڈیوں (اور میرے) لیے حیران کن تھا۔

درحقیقت اس تنظیم کو ابھی بہت سارا کام کرنا ہے جس سے اس کے قیمتوں پر اصل اور دیرپا اثرات قائم ہوں۔

لیکن اس فیصلے کی امید نہیں کی جارہی تھی۔ تاجروں کے خیال میں نتیجہ کچھ زیادہ پُرتذبذب ہوگا، جیسا کچھ اپریل میں دوحا میں منعقدہ اوپیک اور چند دیگر تیل برآمد کرنے والے ممالک کے اجلاس میں ہوا تھا۔

الجزائر میں ہونے والے فیصلے اور اس سے پہلے ایسی ناکام کوششوں کا سیاق و سباق یہ ہے کہ خام تیل کی قیمتیں جون 2014 کی قیمتوں سے نصف سے بھی کم ہیں۔

اس سے اوپیک ممالک کو تکلیف پہنچتی ہے۔

حکومتی سرمائے اور معاشی کارکردگی پر اس کے اثرات دیکھے گئے۔

انگولا کی معیشت سنہ 2013 میں سات فیصد بڑھی ہے۔ گذشتہ سال یہ تین فیصد تھی۔

وینزویلا کی اعداد و شمار اس سے بھی برے ہیں، اگرچہ اس میں صرف کسی حد کردار تیل کی قیمتوں کا ہے۔ ملک میں سیاسی بحران نے اس ملک کی معیشت کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔

اوپیک ممالک نے یہ معاشی درد گذشتہ دو سال سے مزید شدت سے محسوس کیا ہے۔

اوپیک تیل کی پیداوار والے تمام ممالک کی نمائندگی نہیں کرتا۔ کئی بڑے پیداواری ممالک ہیں جو اس کے رکن نہیں ہیں، جن میں امریکہ، روس، چین اور کینیڈا شامل ہیں۔ لیکن یہ تنظیم جو عالمی سطح پر تقریباً 40 فیصد منڈی کی نمائندگی کرتی ہے، اور یہ پیداوار میں کمی سے اثرانداز ہوسکتی ہے۔ ماضی میں بھی تیل کی قیمتوں میں کمی کے جواب میں تیل کی پیداوار میں کمی کرتی رہی ہے۔

ماضی میں سعودی عرب اس تنظیم میں اہم کھلاڑی رہا ہے اور اکثر اسی کی جانب سے کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔

اس بار ایران پر پابندیاں اٹھ جانے سے اس کی شمولیت کے بعد صورتحال کچھ پیچیدہ ہے۔ ایران اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور مارکیٹ میں دوبارہ اپنا حصہ لینے کے لیے پرعزم ہے۔

اوپیک کے لیے مسئلہ یہ تھا کہ سعودی عرب تیل کی پیداوار میں کمی کے حق نہیں تھا جب تک ایران بھی ایسا نہیں کرتا، اس صورتحال میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔

یہی کشیدگی اپریل میں دوحا میں ہونے والے اجلاس کی ناکامی کا باعث بنی۔

اب حالات کچھ تبدیل ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایران اپنی پیداوار میں اضافہ کر چکا ہے۔ وہ مزید اضافہ کر سکتا ہے، لیکن اتنی آسانی سے نہیں جتنی پابندیاں اٹھنے کے فورا بعد تھی۔ سعودی عرب نے بھی اپنے موقف میں نرمی پیدا کی ہے۔

سعودی وزیر تیل خالد الفالح کا کہنا تھا کہ ایران، نائجیریا اور لیبیا کو زیادہ سے زیادہ 'پیداوار کی' اجازت دی جائے گی جو قابل فہم ہے۔

تنظیم کے سیکریٹری جنرل محمد سنوسی برکنڈو نے بی بی سی کو بتایا کہ ان تین ممالک نے نامساحد حالات کی وجہ سے اپنی پیداوار کا خاصا حصہ کھویا ہے اور ان کو بقیہ حریفوں کے مقابلے میں مختلف انداز میں دیکھا جائے گا۔