آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
ڈھابوں پر ستو کا نیا جنون: ایک صحت بخش غذا جو انڈیا میں سیاسی آلہ اور فیشن بنتی جا رہی ہے
- مصنف, سوگاتو مکھرجی
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
ڈھابوں کے سادہ کھانوں اور مشروبات کے اہم جزو ستّو کا بڑے شہروں میں استعمال کئی برسوں تک برائے نام رہا ہے، مگر اب اسے مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔
کشن یادیو نے سٹیل کی بنی ایک پتیلی میں موجود پانی میں ستّو ڈالا اور پھر ایک بڑے سے چمچ کی مدد سے اسے زور زور سے پھینٹنے کے بعد اس پر نمک، زیرہ پاؤڈر اور کالی مرچ چھڑکی، پھر تھوڑا سے لیمو نچوڑ کر اس مشروب کو پھر سے اچھی طرح ہلایا تاکہ ستّو کی ڈلیاں گھُل جائیں۔ پھر اس مشروب کو ایک گلاس میں بھر کر اسے باریک کٹی ہوئی پیاز اور ہرے دھنیا کے چند پتوں سے سجا کر میرے حوالے کر دیا۔
انھوں نے لبوں پر مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے کہا، ’آپ کا ستّو شربت تیار ہے۔‘
کلکتہ کی اس سڑکے کے کنارے بنے ہوئے ان کے ڈھابے پر ان کے گاہک، جن میں ہاتھ گاڑیاں کھینچنے والے اور ٹیکسی چلانے والے شامل ہیں، بڑے صبر سے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔
ستو کا یہ گلاس، جس کی قمیت محض 10 روپے ہے، ان لوگوں کے لیے توانائی کا ذخیرہ ہے۔ یہاں آنے والے اکثر لوگوں کا تعلق بہار اور اتر پردیش سے ہے۔ یہ ریاستیں صرف افرادی قوت ہی فراہم نہیں کرتی بلکہ ستو بھی وہیں سے آتا ہے۔
اس کا صحت افزا شربت انڈیا میں تقریباً ہر جگہ ہی ملتا ہے اور شمالی اور مشرقی علاقوں میں تو بہت ہی مقبول ہے۔ ستو کا آٹا جو بنگالی چنے یا دوسرے انجاج سے بنایا جاتا ہے بڑے شہری خوانوں یا مشروبات میں کم ہی استعمال ہوتا تھا۔ لیکن پچھلے کچھ برسوں سے اس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے اور اب اس سے بنی چیزیں بڑے شہروں کے بڑے ریستورانوں میں بھی ملنے لگی ہیں اور اس کا شمار وِیگن اور گلوٹین فری جیسے سپر فوڈز یا اعلیٰ خوراکوں میں ہونے لگا ہے۔
ستو کا آٹا فیشن کی بجائے اپنی کم قیمت کی وجہ سے زیادہ مقبول رہا ہے۔
یادیو ستو کا شربت دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے اپنے ڈھابے پر فروخت کر رہے ہیں۔ انھوں نے مجھے ستو بنانے کے طریقے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ پہلے بنگالی چنے کو پانی میں بھگویا جاتا ہے، پھر اسے دھوپ میں سکھانے کے بعد لوہے کی کڑاہی میں ریت کے اندر بھونا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے باریک پیس لیا جاتا ہے۔ یادیو نے مجھے بتایا کہ ستو کا ذائقہ اس عمل کو لکڑی سے جلنے والے چولہے پر کرنے سے پیدا ہوتا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’فِیسٹس اینڈ فیکٹس: اے ہسٹری آف فوڈ ان انڈیا‘ کے مصنف کولین ٹیلر سین کے مطابق یہ طریقہ بہت پرانا ہے۔
وہ لکھتی ہیں کہ ویدوں کے زمانے میں (1500 سے 500 قبل از مسیح) جو کو باریک پیس لیا جاتا تھا اور اس سفوف کو سکتو کہتے تھے۔ یہ ستّو کی ہی ایک شکل تھی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب گوشت اور دودھ سے بنی اشیا خواص کے لیے مخصوص تھیں جبکہ ستو عوام کی خوراک تھی۔
مزدور اور کسان اسے پانی میں گھول کر اور نمک مرچ چھڑک کر پیٹ کی آگ بجھا لیتے تھے۔ نیو یارک یونیورسٹی سے وابستہ ایسوسی ایٹ پروفیسر اور کئی کتابوں کی مصنف کرِشنیندو رے کہتی ہیں کہ ’ستو وادئ گنگا کے مشرقی حصے (اتر پردیش اور بہار) سے آنے والے مزدور طبقے کی خوراک ہوا کرتی تھی۔ یہ ہی وجہ ہے کہ یہ شہری امرا طبقے میں قبولیت حاصل نہیں کر سکا۔‘
اور یہ ہی سبب ہے کہ موجودہ دور میں گنگا کے میدانی علاقوں میں یہ عوام کے درمیان اتحاد کی علامت اور سیاسی آلہ بن کر سامنے آیا ہے۔
سنہ 2018 میں بہار کے سیاست دان تیج پراتاب یادیو نے اپنے حلقۂ انتخابات میں ایک ستّو پارٹی کا اہتمام کیا تھا جس میں انھوں نے لوگوں کی بات سنی اور ان سے خطاب کیا۔ سنہ 2020 میں وزیراعظم نریندر مودی کی ایک تصویر نے، جس میں وہ لِٹی چوکھا (ستو بھرے بہاری پیڑے) کھا رہے ہیں، گرما گرم سیاسی بحث چھیڑ دی تھی۔ جہاں ایک جانب ان کے مداحوں نے ان کے اس فعل کو سراہا وہیں ان کے مخالفین نے بہار کے ریاستی انتخابات سے پہلے اسے سیاسی شعبدے بازی قرار دیا۔
یہ بھی پڑھیے
لِٹی چوکھا میرا بھی پسندیدہ پکوان ہے، اور اس کی جو قسم شمالی کلکتے کی نِمتلا گھاٹ سٹریٹ پر ملتی ہے وہ مجھے سب سے اچھی لگتی ہے۔
یہاں کوئی ایک کلومیٹر لمبی پٹی پر بے شمار ڈھابے ہیں جو جلتے کوئلوں یا لکڑیوں پر رکھے تووں پر لِٹی چوکھا کی چھوٹی چھوٹی گولیاں بنانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ پانچ یا چھ گولیاں اور چوکھا (بھونی ہوئی سبزی جیسا کہ بینگن، ٹماٹر یا آلو) 40 روپے میں مل جاتا ہے۔ ساتھ ہی ہری مرچوں، املی، پودینے اور لہسن کی چٹنی مزے کو دوبالا کر دیتی ہے۔
جنوبی کلکتے کے ایک امیر علاقے میں ایک چھوٹے سے ریستوران کے شریک مالک پنکج مشرا کہتے ہیں کہ ’پچھلے چند برسوں کے دوران صورتحال بدل گئی ہے۔ جب ہم نے 2016 میں اپنی دکان کھولی تھی تو ہم نے سوچا بھی نہیں تھا کہ لٹی چوکھا اور ستو امیر لوگوں میں اتنے مقبول ہو جائیں گے۔‘ یہ دونوں چیزیں اب امیر لوگوں کی دعوتوں کا اہم جزو بن گئی ہیں۔
مشرا کا کہنا ہے کہ ’اب تو شہر کے بعض بڑے صنعت کار بھی ہمارے کرم فرماؤں میں شامل ہیں۔‘
دلی اور بنگلور جیسے بڑے شہروں میں اپنی صحت کی فکر کرنے والے بھی اب تو بڑے ریستورانوں میں ستو سے روشناس ہو رہے ہیں، جہاں باورچی ستو اور لٹی چوکھا بنانے کی روایتی ترکیبوں پر جدید تڑکے لگا رہے ہیں۔
بعض جگہوں پر ان میں پنیر کی کترنیں اور اچار کے چٹخارے ملائے جا رہے ہیں۔ مگر وہاں ان پکوانوں کی قیمتیں کہیں زیادہ ہیں، مثلاً ایک ریستوان میں سجی سجائی پیکنگ میں ایک ستو گلاس کی قیمت 190 روپے لگائی گئی ہے۔
انڈیا میں پرچون اشیا فروخت کرنے والی ایک بڑی چین سے وابستہ سیونی سمینتا کہتی ہیں ’حالیہ مہینوں میں ستو کے پیکٹوں کی فروخت میں بے مثال اضافہ ہوا ہے۔ میرے خیال میں گاہک ان مصنوعات کو ترجیح دے رہے ہیں جن پر آرگینک یا گلوٹین فری کا لیبل لگا ہوا ہو۔‘
ڈاکٹر تلسی شرینیواس بوسٹن کے ایمرسن کالج میں بشریات کی استاد ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ستو جیسے مشروبات کی امرا میں مقبولیت ایک طرح کی ثقافتی تبدیلی ہے۔ امرا کے لیے یہ ایک ایسا سفر ہے جس میں وہ روایتی غذاؤں کے علم کو دریافت کر رہے ہیں۔ یہ ’اعلی غذائیں‘ فروخت کرنے والوں کے لیے بھی نفع بخش ہوتی ہیں۔ مگر مجھے جس بات کی خوشی ہے وہ یہ ہے کہ اس طرح سے ایک مقامی صحت بخش غذا پھر سے دریافت اور مقبول ہو رہی ہے۔‘
میں نے یہ خود بھی پروانچلی میں سپیشلائز کرنے والے ریستوان باٹی چوکھا میں دیکھا۔ رات کے قریباً 10 بجے زیادہ تر میزوں پر دفتروں میں کام کرنے والے نوجوان بیٹھے ہوئے نظر آئے۔
میرے برابر والی میز پر بیٹھی دیپیکا نے کہا کہ ’میں اکثر کام میں وقفے کے دوران یہاں پر آتی ہوں۔‘
اپنی پلیٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا ’میں نے یہ سب بچپن میں نہیں کھایا ہے۔ میرے لیے یہ ایک نیا ذائقہ ہے۔ مگر اب مجھے ستو سے بھری یہ گولیاں بہت اچھی لگنے لگی ہیں۔ یہ معدے پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتیں اور انھیں کھا کر اس قدر پیٹ بھر جاتا ہے کہ رات کی شفٹ آسانی سے گزر جاتی ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ مجھے وہ پچھتاوا بھی نہیں ہوتا جو الٹی سیدھی چیزیں کھانے کے بعد ہوتا تھا۔‘
چند روز کے بعد میں یادیو کے ڈھابے پر دوبارہ گئی تاکہ جان سکوں کہ گلی کوچوں کے سادہ سے مشروب ستو کے امیر لوگوں میں مقبول ہونے کے بارے میں وہ کیا سوچتے ہیں۔ جون کی سخت گرمی میں وہاں پر حسب توقع بھیڑ تھی۔ اعلی طبقے میں ستو کی مقبولیت سے وہ متاثر نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ ’مجھے اس وقت تک خوشی ہو گی جب تک میں اپنے گاہکوں کو ستو کا شربت 10 روپے میں فراہم کر سکوں۔ میری بس یہ خواہش ہے کہ اس ساری ہنگامہ خیزی میں کہیں (ستو کی) قیمت نہ بڑھ جائے۔‘
برابر کھڑے ادھیڑ عمر کے لالو نے اپنا گلاس ختم کیا، اور دھیمی آواز میں یادیو کی تائید کرتے ہوئے کلکتے کی مصروف سڑکوں پر رواں بھیڑ میں اپنی ہاتھ گاڑی سمیت گم ہو گئے۔