چائے کی کیتلیوں کو روسی پراپیگنڈہ پھیلانے کے لیے کیسے استعمال کیا گیا؟

روسی فن پارے

،تصویر کا ذریعہHermitage Museum, Amsterdam

یہ سنہ 1917 کی بات ہے جب روس میں کمیونسٹوں نے بادشاہ (ژار) کو اقتدار سے بے دخل کر کے حکومت پر قبضہ کر لیا تھا اور یہ اعلان کیا تھا کہ انقلابی کمیونسٹ حکومت پیداوار کے ذرائع عوام کو منتقل کریں گے۔

ایک برس کے اندر ہی شاہی خاندان بھی سامراجیت کی طرح اپنی موت مارا گیا جس نے روس کے نئے قدامت پسند مستقبل کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔

لیکن سینٹ پیٹرسبرگ کے مضافات میں پرانے نظام کی ایک اہم یادگار چینی مٹی کے برتن بنانے والا کارخانہ باقی رہ گیا۔

ولادیمیر لینن کی سرپرستی میں کمیونسٹوں نے ژار کے زوال کی اس یادگار کا نظام سنبھالتے ہوئے اس کا نام سٹیٹ پروسلین مینوفیکچرنگ (ریاستی چینی کی مٹی کے برتن کے کارخانے) سے تبدیل کر دیا۔ انھوں نے اس کی حیرت انگیز صلاحیت کو دیکھتے ہوئے فنکارانہ اختراع اور پروپیگنڈے کی تیاری کے لیے ایک کارخانے کے طور پر دیکھا۔

یہاں غیر پینٹ شدہ چینی کے سفید برتنوں کے ذخیرے ایسے پیش رو آرٹسٹوں کے لیے ایک ایسا کینوس بنے جو اپنی تصوراتی دنیا اور خیالات کا اظہار کرنے کے خواہشمند تھے اور نئے سوشلسٹ دور کے لیے پرجوش تھے۔ انھوں نے اس نازک اور امرا کے استعمال کے برتنوں کو ایک متضاد اور نئی زندگی بخش دی تھی۔

ان برتنوں سے سامراجیت کے نشانات کو کھرچ دیا گیا یا پینٹ کر دیا گیا اور اس کی جگہ مزدور اور صنعت کی علامت کے طور پر ایک درانتی اور ہتھوڑا لگا دیا گیا۔ کمیونسٹوں کے لیے یہ نشان مزدور اور کسان کے اتحاد کی علامت ہیں اور سوویت یونین کے جھنڈے پر نمایاں تھے۔

چینی کے برتن بنانے والے ماہر اور آرٹسٹ سرگئی چیکونن کی سرپرستی میں یہ نشان بہت سے کارخانوں نے خود ہی اپنا لیا اور اس ڈیزائن کو برتنوں پر بنانا شروع کر دیا۔

روسی فن پارے

،تصویر کا ذریعہHermitage Museum, Amsterdam

ملک کی پیداوار بڑھانا لینن کے نظریے کا بنیادی جز تھا اور اس نئے تیار کردہ چینی کے برتنوں پر کارخانوں کی دھواں نکالتی چمنیاں، ٹیلیگراف کی تاروں، اور اونچی عمارتوں کی بڑی بڑی تصویروں نے چراگاہوں کے مناظر کی جگہ لے لی۔

یہ تصاویر اس کتاب میں بھی شائع کی گئی تھیں جو روس کے فن کے انقلابی دور میں چینی مٹی کے برتنوں پر بنائی گئیں تھیں اور اسے جنوری میں روس سے باہر ایمسٹرڈیم کے ہرمٹیج عجائب گھر میں نمائش کے لیے رکھا گیا تھا۔ لیکن اسے یوکرین پر روس کے حملے کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔

اس کو باغی پورسلین یعنی چینی مٹی کے برتن کہا جانے لگا۔ اس میں لینن کے خاکے اور تصاویر شامل تھیں اور ان پر بغاوت کرنے پر اکسانے والے نعرے تھے۔ ان کے بنانے والے کو توقع تھی کہ یہ ان برتنوں کی پیداوار کو بڑھا دیں گی۔

ان برتنوں پر بنائے جانے والے خاکوں میں اب آزاد مزدور اور کسان مرکز نگاہ تھے، کبھی کارخانوں کے بڑے بڑے انجنوں کی صورت میں جو ایک تابناک مستقبل کی طرف گامزن تھے، یا کسان خوشی سے ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ جیسا کہ میخائل ایڈمووچ (1921)، نتالیہ ڈانکو (1922) یا اینٹون کوماشکا (1923) کی پلیٹوں میں دیکھا گیا ہے۔

یہ چینی کے برتنوں کے صنعت میں ایک پرتجسس موڑ تھا، جو برتن کبھی رومیوں کی پرتکلف ضیافتوں کے لیے استعمال ہوتے تھے اب ان پر کمیونسٹ عسکریت پسندوں کی تصاویر بنی تھی۔

اسی طرح ڈانکو کے چینی کے برتنوں پر بنائی گئی شطرنج کی بساط کی تصاویر میں بھی انھیں رنگوں کا استعمال کیا گیا اور کمیونسٹ فوج کو لال رنگ سے دکھایا گیا جو سفید بادشاہ کی فوج پر سبقت حاصل کر رہی تھی اور ان کے پیادوں کو زنجیروں میں دکھایا گیا تھا۔

جبکہ چینی مٹی کے برتن کی پلیٹوں کے فن پاروں اور تصاویر میں عمارتیں، توانائی، دھماکوں اور تباہی کی عکاسی کی گئی تھی۔

مورخ اور ہرمیتیج نمائش کے مہمان کیوریٹر ڈاکٹر جینگ شیجن نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ 'کمیونسٹوں کا چینی مٹی کے برتنوں کے کارخانہ کو چلانے کا بنیادی مقصد ثقافتی ورثے کا تحفظ کرنا تھا۔

روسی فن پارے

ثقافتی کرنسی

فیکٹری نے اپنے وقت کے سب سے زیادہ بصیرت والے فنکاروں کو بھرتی کیا تھا، روسی فنکاروں جیسا کہ وسیلی کینڈنسکی اور کاظمیر مالیوچ، جن کے فن پاروں نے مجسمہ سازی کو مات دے دی تھی، نے ایک انقلابی فنکارانہ نظریے کا اظہار کیا جو نئی حکومت کے لیے موزوں تھا۔

روسی مصوروں اور خاکہ نویسوں کے لیے اس نئی نظام کے ہر پہلو میں فن کا کردار تھا، اور وہ اپنے منفرد انداز کو تھیٹر، موسیقی، فلم اور فن تعمیر جیسے متنوع شعبوں تک لے آئے۔ سیرامکس اس سے مختلف نہیں تھے، اور وہ بلا شبہ باقاعدہ آمدنی اور باوقار تعلق کے لیے شکر گزار تھے جو فیکٹری کو جنگ کے بعد کے سخت دور میں فراہم کی گئی تھی جب قحط، خانہ جنگی اور بیماری نے بہت سی روسی زندگیوں کو تباہ کر دیا تھا۔

شیجن کہتے ہیں کہ 'سب سے بڑھ کر، فنکار تجربہ کرنے کے لیے پرجوش تھے۔ ''زیادہ تر وقت فنکار صرف ان خاکوں پر توجہ مرکوز رکھے ہوئے تھے کہ کس طرح وہ اپنی انقلابی، تجریدی زبان کو جو انھوں نے تیار کی ہے، ان مخصوص شکلوں میں ضم کر سکتے ہیں۔‘

کیتلی

،تصویر کا ذریعہHermitage Museum, Amsterdam

یہ تخلیقات بالکل کمرشل نہیں تھیں۔ ہرمیٹیج ایمسٹرڈیم کی برجٹ بوئلنز نے بی بی سی کلچر کو بتایا کہ ’وہ بہت نایاب، بہت تجرباتی نوعیت کے تھے۔ ’انفرادی چیزیں اتنی اعلیٰ معیار کی ہیں کہ انھیں بڑے پیمانے پر تیار کرنے میں بہت زیادہ وقت لگا۔‘

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود چینی مٹی کے برتنوں کے انقلابی پیغامات کے، محنت کش لوگوں کا اس سے بہت کم رابطہ تھا، اور زیادہ تر یہ دولت مند کلیکٹرز کے ہاتھوں ہی میں رہے۔

یہ بھی پڑھیے:

1920 کی دہائی کے اواخر تک، جب جوزف سٹالن نے اقتدار سنبھالا، تمام اپوزیشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور آمریت قائم کی، تو آرٹ کا پروپیگنڈہ کے لیے استعمال بھی تیز ہو گیا۔ جس نے ایک ظالمانہ حکومت کی تشہیر کی اور جہاں پیارے پیارے بچے اور گانے گاتی کمیونسٹ یوتھ بریگیڈز اپنے رہنماوں کی تصاویر اٹھا کر گھومتی رہتی۔ سوشلسٹ حقیقت پسندی نے جنم تو لیا، لیکن یہ لامحالہ طور پر غیر مستند اور بے قاعدہ تھی۔ اس ضرورت نے کہ تمام فن تعلیمی اور مقبول ہو فنکارانہ کوشش کو روک دیا تھا۔

روسی فن پارے

،تصویر کا ذریعہHermitage Museum, Amsterdam

شیجن بتاتے ہیں کہ ’30 کی دہائی کے آغاز میں واقعی سب کچھ بدل جاتا ہے جب فنکار خود حقیقی دباؤ میں آجاتے ہیں کیونکہ اب کوئی آزاد فنکار نہیں ہے۔ اگر آپ یونین کا حصہ نہیں ہیں، تو آپ کو ایک پیراسائیٹ یا دوسروں پر پلنے والے کیڑے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے اور آپ کو (جبری مشقت کے) کیمپ میں بھیجا جا سکتا ہے۔۔۔ اگر آپ مکمل طور پر بات نہیں مانتے، تو آپ کے لیے بڑا مسئلہ ہو سکتا تھا۔‘

فن اپنا جوش اور ولولہ کھو چکا تھا۔ شیجن کہتے ہیں کہ ’آپ دیکھیں کہ کس طرح ایک عظیم فنکارانہ ثقافت دباؤ کی وجہ سے ختم ہو جاتی ہے۔ جب آپ 30 کی دہائی کے آخر کے عجائب گھروں کے ذخیروں کو دیکھنے کے لیے جاتے ہیں تو یہ واقعی بہت افسردہ کرتا ہے۔‘

زبردستی سے پیدا کیا ہوا قحط، بڑے پیمانے پر قید اور پھانسیوں نے سنہ 1917 کے یوٹوپیائی وژن کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔ سوشلزم ناکام ہو چکا تھا اور انقلابی فن نے غریبوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے کے لیے کچھ نہیں کیا تھا۔

بوئلنز کے لیے، ان انتہائی قیمتی چینی مٹی کے برتنوں کا بچنا اور یہ حقیقت کہ اب ان سے بہت سارے لوگ لطف اندوز ہو رہے ہیں، پھر بھی ان کے فن کی اہمیت اور کامیابی کی گواہی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ان چیزوں کو بہت سراہتے ہیں۔ اس نمائش کی مثبت بات یہ ہے کہ ہم نے ان تمام چیزوں کو اتنے برسوں بعد ایک آواز دی ہے۔‘