آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
ان کہی باتیں سمجھنے کا فن عام زندگی میں کتنا اہم ہوتا ہے؟
جب آپ کسی شاپنگ مال یا دفتر کی ایسکلیٹر (خود کار سیڑھیاں) پر چڑھتے ہیں تو کیا آپ دوسروں کے لیے راستہ چھوڑ کر ایک طرف کو کھڑے ہو جاتے ہیں؟ اگر کوئی یہ کہے کہ کمرے میں بہت گرمی ہے تو کیا آپ کھڑکی کھول دیں گے؟ اگر آپ کسی کو ڈیٹ پر مدعو کریں اور وہ آپ کا منہ تکتا رہے تو کیا آپ یہ دعوت واپس لے لیں گے؟
اگر آپ ایسا کچھ نہیں کرتے تو آپ کے لیے بری خبر ہے: آپ کو حالات کو بھانپنے کا فن نہیں آتا۔
معاشرے میں زندگی کے اس طرح کے ان کہے ضابطوں کو جاننے کے لیے اپنے ماحول کو مربوط طریقے سے سمجھنا ضروری ہے، چاہے آپ کہیں بھی ہوں۔
اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ دنیا میں کہا رہتے ہیں، یہ ایک بیش قیمت ہنر ہے۔ تاہم جاپان میں، جہاں ویسے بھی لوگوں کے درمیان رابطے روائتی اور براہ راست کم ہوتے ہیں، وہاں اسے ایک الگ ہی درجہ حاصل ہے۔
حالات کو بھانپ لینا یا صورتحال کو سمجھنے کے فن کو جاپانی زبان میں میں جاپانی میں ’کوکی او یومو‘ کہتے ہیں۔ جاپان میں یہ ایک مسلسل عمل ہے، کہیں بزنس ڈیل ہو یا رشتہ، سب تباہ ہو سکتا ہے۔
جاپان میں اس ہنر کا عمل دخل چہروں کو پڑھنے والی فیشیل ریکگنیشن ٹیکنالوجی سے لے کر ویڈیو گیمز تک، یعنی زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اس میں کسی حد تک ’خود کو دوسرے کی جگہ‘ رکھ کر سوچنا شامل ہے جسے جاپانی میں شینوبو کیتایاما کہا جاتا ہے۔
کمرے میں موجود لوگوں کے ’احساسات پڑھنا‘
پچھلے برس جاپان میں ایک ٹویٹ وائرل ہو گئی تھی؛ کیوٹو میں ایک تاجر کام کے سلسلے میں ایک شخص سے ملا۔ کچھ دیر بعد اس شخص نے تاجر کی گھڑی کی تعریف کی۔ پہلے تو تاجر گھڑی کی خصوصیات بتانے لگا لیکن پھر اسے احساس ہوا کہ وہ شخص دراصل یہ چاہتا تھا کہ تاجر اپنی گھڑی دیکھے، اسے وقت کا احساس ہو اور وہ میٹنگ ختم کرے۔
روشیل کوپ مختلف ثقافتوں کے درمیان رابطوں کے لیے ایک ٹریننگ فرم چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ویسے تو ہر قوم میں کسی نہ کسی حد تک بلا واسطہ رابطہ ہوتا ہے لیکن جاپان میں اس کے بغیر گزارا نہیں، یعنی آپ یہ کر پائیں گے پورا معاشرہ آپ سے یہ توقع کرتا ہے۔
یوکو ہاسیگاوا یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں جاپانی زبان کی پروفیسر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ہوا کے ذریعے انسان کو پڑھنے کے لیے وسیع ثقافتی، تاریخی اور ذاتی معلومات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ’دو لوگ جو دراصل ایک دوسرے کے دشمن ہوں مگر بظاہر ایک دوسرے کی تعریف کر رہے ہوں۔ ایسے میں اگر آپ ان کے درمیان موجود غیر روائتی گفتگو کو نہیں پڑھ پائے تو آپ کچھ ایسا کہہ سکتے ہیں جس سے بات اور بگڑ جائے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ میں یہاں امریکہ میں اسی وجہ سے اکثر سماجی محفلوں میں حالات کو بھانپنے میں ناکام رہتی ہوں۔‘
مثال کے طور پر جاپان میں اگر آپ ٹرین کے خاموش ڈبے میں زور زور سے بات کر رہے ہیں یا اس کلائینٹ سے بات کیے جا رہے ہیں جسے آپ کی بات میں کوئی دلچسپی نہیں تو بہت ممکن ہے کہ لوگ آپ کو تضحیک سے ’کے وائی‘ یعنی ’کوکی گائےومینائی‘ بلائیں گے۔ بول چال کی زبان میں اس کا مطلب ہے ’وہ جسے ہوا کو پڑھنا نہیں آتا۔‘ یعنی وہ کسی بھی صورتحال میں حالات کو بھانپنے سے قاصر ہے۔
یونیورسٹی آف میشیگن میں پروفیسر اور جرنل آف پرسنیلیٹی اینڈ سوشل سائیکالوجی کی مدیر شینوبو کٹایاما کہتی ہیں کہ ’ہر گروپ میں ایسے کچھ لوگ ہوتے ہیں جو کے وائی کہلانے لگتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’کئی دفعہ چند اداروں میں آپ کو اہم موضوعات پر بات چیت سے الگ کیا جاتا ہے۔ کئی بار اسی وجہ سے سکول میں آپ کو ہراساں کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ کو ہوا کا رخ سمجھنے میں دقت ہوتی ہے تو یہ آپ کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔‘
چہرے کی چھوٹی سے چھوٹی جنبش کو سمجھنا
ڈیوڈ ماسوموٹو سین فرینسسکو سٹیٹ یونیورسٹی میں سائکالوجی کے پروفیسر ہیں اور بین الثقافتی اور نان وربل رابطوں یعنی غیر روائیتی یا غیر لفظی گفتگو کے ماہر ہیں۔ وہ مائیکرو ایکسپریشنز یعنی وہ ہلکے تاثرات یا عادات جو ایک شخص کے اصل جذبات کی عکاسی کرتے ہیں کو سمجھنے کی ماہرت رکھتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ وہ آپ کے کام سے بہت خوش ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے ان کے ہونٹ یا بھویں ہلکے سے ہلیں تو اس کا مطلب ہو سکتا ہے کہ شاید وہ پورا سچ نہ بول رہے ہوں۔ کسی بھی صورت حال میں باتوں کے علاوہ مائیکرو ایکسپریشنز اور نان وربل کمیونیکیشن یعنی وہ جو کہا نہیں جاتا بہت ہی اہم ہوتے ہیں۔
ماٹسوموٹو کہتے ہیں کہ ’خاموشی خود ایک طرح کی زبان ہے۔ آپ کے بیٹھنے کا انداز۔ مسکراہٹ۔ یہ سب اس پیکیج کا حصہ ہیں جس کے ذریعے آپ بنا کچھ کہے بہت کچھ سمجھ سکتے ہیں۔‘
ماٹسوموٹو کی طرح محقق کنجی شیمیزو بھی ٹوکیو کے ضلع تورانومون میں ایک ایسی کمپنی چلاتے ہیں جہاں لوگوں کو مائیکرو ایکسپریشنز اور نان وربل مواصلات کے بارے میں سکھایا جاتا ہے۔ ان کے گاہکوں میں زیادہ تر جاپانی کمپنیز اور حکومتی ادارے شامل ہیں۔ شیمزو ایک امریکی سائیکالوجسٹ پال ایکمین کا تیار کردہ نظام استعمال کرتے ہیں۔ پال ایکمین نے چہرے کے بدلتے تاثرات کے لیے ’غیر رضاکارانہ جذباتی لیکیج‘ کی اصطلاح کا استعمال کیا۔
شیمزو اپنے کلائینٹس کو تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے سکھاتے ہیں کہ کن چیزوں پر نظر رکھی جانی چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کئی بار ایسا ہوتا کہ کوئی اپنے اصل جذبات کو مسکراہٹوں میں چھپانے کی کوشش کر رہا ہو لیکن ایسے میں بھی ان کے چہرے کے تاثرات کو باریکی سے پڑھ کر (مثلا کیا وہ اپنے ہونٹ دبا رہے ہیں، یا ان کی بھویں جھک رہی ہیں، یا وہ ناک چڑھا رہے ہیں) آپ کو ان کی اصل خواہشات کا اندازہ ہو سکتا ہے اور آپ بہتر انداز میں ان کی مدد کر سکتے ہیں۔‘
ویڈیو گیمنگ
اس سب کے باوجود باڈی لینگویج کو سمجھنا ’ہوا کو پڑھنے‘ کے فن کا صرف ایک حصہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی صورت حال کے پس منظر کو سمجھنا بھی اہم ہے۔ خاص طور پر جاپان جیسے ملک میں، جہاں ہر بات لفظوں میں بیان نہیں کی جاتی، اشاروں میں سمجھائی اور سمجھی جاتی ہے۔
یہ سب جاپانی معاشرے کا اتنا اہم حصہ ہے کہ اس بارے میں ایک ویڈیو گیم بھی بنی ہے۔ پچھلے ماہ ’کووکیومی: کنسیڈر اِٹ‘ نامی ویڈیو گیم کو نینٹینڈو سویچ کے لیے ریلیز کیا گیا۔ اس گیم میں لوگوں کو ایک سو نازک حالات میں ڈالا جاتا ہے اور ان کی ہوا کو پڑھنے یعنی ان کہی باتوں کے ذریعے حالات کو سمجھنے کی صلاحیت کے حساب سے پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔ مثلاً آپ ایک ٹرین میں بیٹھے ہیں اور آپ کے بغل والی سیٹ خالی ہی، تبھی ایک جوڑا داخل ہوتا ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ اگر آپ ہوا کو پڑھ سکتے ہیں تو آپ کھڑے ہو جائیں گے تاکہ وہ دونوں ساتھ بیٹھ سکیں۔
اس ہنر کی مشق کیسے کی جائے؟
تو آپ اس ہنر میں بہتر کیسے ہو سکتے ہیں؟ خاص طور پر اگر آپ اس ثقافتی پس منظر سے واقف نہ ہوں تو؟
کیٹایاما کے مطابق خود کو دوسرے کی جگہ رکھ کر سوچنا اس کا ایک اہم حصہ ہے۔ ’یہ کوئی ایسا فن نہیں جو سیکھا نہ جا سکے۔‘
اور آپ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہوتے جائیں گے۔ کووپ کہتی ہیں کہ لوگوں کو سکھانا مشکل ہے مگر ’ان پیغامات پر دھیان دیں جو بولے نہیں جاتے اور اگر کوئی چیز واضح نہ ہو تو بڑھ کر سوال پوچھیں۔‘
ثقافتی پس منظر کے بارے میں تھوڑی سی بھی معلومات کافی مددگار ہو سکتی ہیں، چاہے آپ کسی کا چہرہ پڑھنے کی کوشش کر رہے ہوں یا پھر کمرے کو۔ ’بہت سی بنیادی باتیں ہیں، جیسے دوسروں کی ثقافت اور طور طریقوں میں دلچسپی لینا، ان کی عزت کرنا۔ اگر آپ دلچسپی لیں گی تو آپ ان کی کہی اور ان کہی باتیں سننے اور سمجھنے میں آسانی ہو گی۔‘