http://www.bbc.com/urdu/

Wednesday, 18 October, 2006, 03:38 GMT 08:38 PST

اشعر رحمنٰ
لاہور

’سیلابِ گیند بلا‘ کب جائے گا؟

غالب کا مصرعہ ہے ’کس گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘۔ پاکستان کرکٹ کے موجودہ بحرانات کو دیکھتے ہوئے پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ سیلابِ ’گیند بلا‘ میرے گھر سے کب جائے گا۔ یکے بعد دیگرے سکینڈلز کی زد میں آنیوالا پاکستان لڑکھڑا رہا ہے اور طوفان ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔

انضمام الحق کھیل کو بدنام کرنے کے جرم میں چار میچوں سے باہر ہوچکے ہیں۔ یونس خان ایک انتہائی ڈرامائی پریس کانفرنس میں کپتانی قبول کرنے سے انکار کے بعد بالاآخر میدان میں قومی ٹیم کی قیادت کرتے نظر آرہے ہیں، مگر ان کا کام دیگر احوال نیک نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی مشکل ہوچکا ہے۔

محمد یوسف خاموشی سے اپنے ان برادران کی کارکردگی کا شکار ہوچکے ہیں جنہوں نے پہلے طوقِ قیادت یوسف کے گلے میں ڈالا اور پھر خود اپنا بستر گول کر کے کرکٹ بورڈ سے رخصت ہوئے۔

اخبارات اور ٹی وی، دونوں ملکی اور غیر ملکی، پاکستان کے بارے میں انضمام، یونس خان اور شہر یارخان کے بارے میں بھرے پڑے ہیں۔ایسے میں دھڑام کی ایک اور آواز کے ساتھ کچھ اور بتوں کے زمین پر آگرنے کی خبر زخموں پر چاقو کی نوک سے نمک ملنے کے مترداف ہے۔

کئی ہفتے سے شعیب اختر کے بارے کچھ متنازعہ سننے کو نہیں ملا تھا۔ سو انتظار ختم ہوا۔

شعیب کے ساتھ اس بار نتھی ہیں محمد آصف۔ دونوں ممنوعہ ادویات استعمال کرنے کی پاداش میں انڈیا سے عین اس وقت واپس بلا لیئے گئے ہیں جب پاکستان کرکٹ کے تمام تنازعات کو جھٹک کر آئی سی سی ٹورنامنٹ میں ایک اچھی کارکردگی کی امید کر رہا تھا۔

کھلاڑیوں کو خود ہی ٹیم سے نکال کر بورڈ نے بظاہر ایک جرات مندانہ فیصلہ کیا ہے۔ یہ بھی بہت ممکن ہے کہ یہ فیصلہ شاید پاکستان کو ایک بہت بڑی ہزیمت سے بچا گیا ہے جو اس وقت ہوتی جب آئی سی سی یہ چوری پکڑتی۔ یہ باتیں اپنی جگہ درست مگر اس دلیل میں بھی وزن ہے کہ پاکستان بورڈ کو ممنوعہ ادویات سے متعلق اپنی تحقیقات ٹیم کے انڈیا جانے سے پہلے ہی مکمل کر لینی چاہیے تھیں۔

جرات مندانہ قدم اپنی جگہ مگر اس شرمندگی کا کیا جائے جو بھانڈا پھوٹنے کی وجہ سے پاکستانیوں کو ہوئی ہے۔

پاکستان کے غیور عوام کو اب تک شرمندگیوں کی عادت ہو جانی چاہئے تھی، مگریہ ہیں کہ شرمندہ ہی ہوئے جارہے ہیں۔ اتنے شرمندہ کہ آج لاہور شہر میں شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جو کہ کرکٹ کا شعور رکھتا ہو اور اپنے کھلاڑیوں اور بورڈ اہلکاروں سے خفا نہ ہو۔ ان کا ردعمل وہی پرانا ہے ’نکال دو ان سب کو‘۔

شعیب اختر کے ڈاکٹر قسمیں کھا کھا کر ان کی بے گناہی کی دہائی دے رہے ہیں۔ شعیب خود کہہ رہے ہیں کہ وہ اس قسم کے فعل کے بارے سوچ بھی نہیں سکتے، مگر سکینڈلز کے تابڑ توڑ حملوں کی زد میں آئے پاکستانی شائقین ’انتہا پسندی‘ پر اتر آئے ہیں۔ ایک لاہوری کے بقول "یار روزیاں دا ای کجھ خیال کر لینا سی"، احترامِ رمضان کی یہ اپیل اس وقت پاکستانیوں کی ایک کثیر تعداد کے خیالات کی غمازی کرتی ہے۔

تماشہ یہ ہے کہ تمام تنازعات ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہے ہیں جب ہم دنیا کو اپنا روشن خیال، پاک صاف چہرہ دکھانے کے لیئے کیا کیا جتن کر رہے ہیں، یا یہ کہ کچھ صرف بولنے کی حد تک ہے؟ کھیل کے میدان میں بھی ہمارے پاس دو راستے ہیں، یا ہم رولز کے مطابق کھیلیں یا پھر روٹھ کر اپنا بلا اٹھا کر میدان سے نکل جائیں۔ خیال یہ ہی ہے کہ ہم کھیلنا چاہتے ہیں۔

خیال یہ ہے کہ ہمارا چہرہ ہمارے تمام تر افکار و خیالات کے باوجود داغدار ہوتا جارہا ہے۔ ان حالات میں ہمارے لیئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے معاملات میں حد درجہ احتیاط کا مظاہرہ کریں۔

اہم یہ نہیں کہ پاکستانی کیا کر رہے ہیں، اہم یہ ہے کہ پاکستانی دنیا کو کیا کرتے نظر آرہے ہیں۔