|
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||
اندرا گاندھی کا وہ جملہ
پاکستان کی اولین کرکٹ ٹیم میں شامل اور لکھنؤ ٹیسٹ میں بارہ وکٹ حاصل کرنے والے چھہتّر سالہ فضل محمود کو ایک بھارتی خاتون کا جملہ آج بھی یاد ہے: ’بیسٹ آف لک۔۔۔مگر آپ ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکتے۔‘ نہ تو یہ جملہ معمولی تھا اور نہ ہی اسے ادا کرنے والی خاتون۔ اسی جملے نے پاکستانی ٹیم کو شاندار کارکردگی دکھانے کا حوصلہ دیا جو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کی زبان سے ادا ہوا تھا۔ اس ’جیتے ہوئے ٹیسٹ میچ‘ میں بارہ وکٹ حاصل کرکے پاکستان کی فتح میں کلیدی کردار ادا کرنے والے فضل محمود اب چھہتّر برس کے ہوگئے ہیں لیکن اس عمر میں بھی ان کا حافظہ غیرمعمولی ہے اور بھارت کے دورے کی یادیں ان کے ذہن میں اس طرح تازہ ہیں جیسے یہ کل ہی کی بات ہو۔
اسلام آباد میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں صدرجنرل پرویز مشرف نے انیس سو باون تریپن میں بھارت کا دورہ کرنے والی پاکستان کی اولین ٹیسٹ ٹیم کے کھلاڑیوں کو میڈل، نقد انعامات، اور قومی کھلاڑیوں کو پہنائے جانے والے پاکستان کےگرین بلیزر پیش کۓ۔ صدر مشرف نے ان کھلاڑیوں کے کارناموں کو نوجوان نسل کے لۓ قابل تقلید قرار دیتے ہوئے زبردست خراج تحسین بھی پیش کیا۔ اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فضل محمود آج بھی پرجوش اور جذباتی ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دہلی ٹیسٹ ہارنے پر ان کی عجیب کیفیت تھی، وہ سوچ میں گم بیٹھے تھے کہ ایک نوجوان خاتون کی آواز آئی: ’بیسٹ آف لک۔۔۔ لیکن آپ ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکتے۔‘ فضل محمود کا کہناہے کہ اس سے قبل کہ وہ کچھ جواب دیتے خاتون نے وہی جملہ دہرایا: ’بیسٹ آف لک۔۔۔ لیکن آپ ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکتے۔‘ فضل محمود کو یہ جملہ سن کر نہ جانے کیا سوجھی کہ انہوں نے پراعتماد انداز اختیار کرتے ہوئے خاتون سے کہا: ’دو روز بعد ہی لکھنؤ ٹیسٹ شروع ہونے والا ہے اگر پاکستان ٹیم کو کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہیں تو ضرور تشریف لائیں۔‘ جب فضل محمود سے پوچھا گیا کہ وہ خاتون کون تھیں تو تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوئے: ’وہ کوئی عام خاتون نہیں بلکہ شریمتی اندرا گاندھی تھیں۔‘
پاکستان کی اس اولین ٹیسٹ ٹیم میں عبدالحفیظ کاردار ( کپتان ) انورحسین، فضل محمود، حنیف محمد، وزیر محمد، وقار حسن، مقصود احمد خان، محمد نذرمحمد، امتیاز احمد، ذوالفقار احمد، امیرالہی، محمود حسین، اسرار علی، خالد عبداللہ، خالد قریشی، روسی ڈنشا اور خورشید احمد شامل تھے۔ ان میں سے عبدالحفیظ کاردار، انورحسین، مقصود احمد، نذرمحمد، امیر الہی اور محمود حسین اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ مسز اندرا گاندھی جو اپنے والد پنڈت جواہر لعل نہرو کی طرح خود بھی بھارت کی وزیراعظم بنیں، کرکٹ کی بہت شوقین تھیں۔ جب پاکستان کو اس کے اولین ٹیسٹ میں شکست ہوئی تو وہ دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں موجود تھیں اور فضل محمود کے لئے ان کا یہ جملہ چیلنج بن گیا۔ اس جملے کا تذکرہ فضل محمود نے اپنے دیرینہ دوست اور ساتھی کھلاڑی نذر محمد سے کیا تووہ بھی پرجوش ہوکر بولے: اگر ایسی بات ہے تو انہیں کوئی بھی باؤلر آؤٹ نہیں کرسکتا۔ لکھنؤ ٹیسٹ میں نذر محمد نے آؤٹ ہوئے بغیر ایک سو چوبیس رن بنائے جو ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی پہلی سنچری تھی۔ اس سنچری کی خاص بات یہ تھی کہ نذر محمد اختتام تک آؤٹ نہیں ہوئے اور فضل محمود نے شاندار باؤلنگ کرتے ہوئے بارہ وکٹ حاصل کرکے پاکستان کی جیت پر مہرتصدیق ثبت کردی۔ فضل محمود کہتے ہیں کہ بے سرو سامانی اور مشکل حالات کے باوجود یہ بلند حوصلے ہی تھے جن کی بدولت پاکستان ٹیم نے اپنےدوسرے ہی ٹیسٹ میں کامیابی حاصل کرکے بین الاقوامی کرکٹ کی رکنیت ملنے کے فیصلے کو درست ثابت کردکھایا۔ اس کے بعد پاکستان کی ٹیم جہاں جہاں بھی گئی کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاکستان کی بھارت کے بعد انگلینڈ، نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلی فتوحات میں فضل محمود کی بولنگ نے اہم کردار ادا کیا۔ اس دور میں اگر حنیف محمد میچ بچانے کی ڈھال تھے تو فضل محمود میچ جتوانے کی کنجی۔ فضل محمود کو اس بات پر سخت افسوس ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کے لئے تیار نہیں اور آج سیاست حاوی ہوگئی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرکٹ کا مطلب فیئر پلے ہے جس کا تعلق انسانی اقدار کی پاسداری سے ہے۔ وہ بھارت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہروہ کاوش جو انسانی اقدار پر پوری نہ اترتی ہو فیئر پلے نہیں ہے، اس سے کرکٹ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ |
| |||||||||||||||||||||||||||||||||||||
| ||||||||||||||||||||||||||||||||||||||