کھیل میں ہونے والی موت اتنی المناک کیوں؟

،تصویر کا ذریعہGetty
دنیا میں 25 برس کی عمر کے نوجوان روزانہ کار کے حادثوں، جنگ کے میدانوں اور کینسر کے وارڈوں میں مرتے ہیں۔
لیکن جب کوئی کھیل کے میدان میں مرتا ہے تو یہ موت ان کے مقابلے پر کچھ زیادہ الم ناک نہیں ہوتی، لیکن اس کے باوجود اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر محسوس کیے جاتے ہیں اور کسی وجہ سے کہیں زیادہ صدمہ انگیز ہوتے ہیں۔
بڑے کھلاڑی ہمارے سپرمین ہوتے ہیں، وہ ایسے حیران کن کارنامے سرانجام دیتے ہیں جو ہم سب کی پہنچ سے باہر ہوتے ہیں۔ انھیں کھیلتا دیکھ کر ہم دنیا کی تلخیوں کو بھلا دیتے ہیں۔
کھیلوں میں ہونے والے ہار جیت کے المیے حقیقی نہیں ہوتے، یہ الگ بات کہ کچھ لوگ انھیں کچھ زیادہ ہی دل سے لگا لیتے ہیں، لیکن ایسے میں جب فل ہیوز کی موت جیسے کسی واقعے کی وجہ سے سراب ٹوٹتا ہے، تو اسے سہارنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ کھیل میں خطرات ہوتے ہیں، چاہے وہ کرکٹ میں 90 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والی گیند ہو یا پھر گراں پری ریس میں سینکڑوں کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلانا ہو۔
اسی وجہ سے ہم کھلاڑیوں کی زیادہ قدر کرتے ہیں، لیکن جب فل ہیوز یا آئرٹن سینا کی موت جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو انھیں سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ وہ افراد ہیں جو ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں، جو تمام اندازے اور پیشن گوئیاں غلط ثابت کر دیتے ہیں۔ اس لیے ہم ان کا زیادہ ماتم کرتے ہیں، ہم ان ریسوں کا ماتم کرتے ہیں جو اب سینا نہیں جیت سکیں گے، ان سنچریوں کا غم مناتے ہیں جو فل ہیوز نہیں بنا پائیں گے۔
اس طرح کی قبل از وقت اموات سے ہم حیرت زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہیوز کا آخری سکور ہمیشہ زندہ رہے گا: 63 ناٹ آؤٹ، اچھا آغاز، لیکن ناکافی۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
تمام دوسرے کھیلوں کی طرح کرکٹ غیر متوقع طور پر واپسی کے قصوں سے مالا مال ہے۔

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
فل ہیوز تو جان سے گئے لیکن نیو ساؤتھ ویلز کے22 سالہ بولر شان ایبٹ کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے جن کا باؤنسر لگنے سے فل ہیوز پچ پر گر پڑے تھے۔ فل ہسپتال میں تھے اور شان کے لیے یہ لمحے حد سے زیادہ تکلیف دہ تھے۔
نومبر سنہ 1982 میں لائٹ ویٹ باکسنگ کے ایک مقابلے میں امریکی باکسر رے مانسینی اور جنوبی کوریا کے ڈک کو کِم کا مقابلہ ہوا جو 14 ویں راؤنڈ تک جاری رہا۔ اس مقابلے کے دوران امریکی باکسر رے مانسینی نے اپنے کوریائی حریف ڈک جو کِم کو شدید زخمی کر دیا جس کے بعد وہ رنگ میں ہی گر گئے۔
ڈک کو کِم کو ہسپتال پہنچایا گیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لا کر دو دن بعد چل بسے۔
اس واقعے کو گزرے 32 سال ہو چکے ہیں تاہم مانسینی کو ابھی یہ واقعہ یاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بارے میں بات کرنا ابھی بھی تکلیف دہ ہے اور میں اسے دہرانا نہیں چاہتا۔







