آئی پی ایل میں مسلم کرکٹروں کی نمائندگی میں کمی

،تصویر کا ذریعہAFP
- مصنف, جسوندر سدھو
- عہدہ, سپورٹس صحافی
ابوظبی کے شیخ زید سٹیڈیم میں بدھ کو ممبئی انڈینز اور کولکتہ نائٹ رائڈرز کے درمیان میچ کے ساتھ ہی انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے ساتویں سیزن کی ابتدا ہوگئی۔
کولکتہ کی ٹیم میں دھواں دھار بلے باز یوسف پٹھان اور بنگلہ دیش کے بائیں ہاتھ کے سپنر شکیب الحسن جیسے اہم نام ہیں لیکن آئی پی ایل کی ديگر ٹیموں میں ایسے مزید نام سننے کو نہیں ملتے کیونکہ پیسہ کمانے کی مشین کہلانے والی اس لیگ میں مسلم کرکٹروں کی نمائندگی ہر نئے سیزن کے ساتھ تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہے۔
سنہ 2008 میں لیگ کا آغاز ہوا تھا۔ اس وقت اسے ایک گلوبل فیملی کا نام دیا گیا تھا لیکن ہر موسم کے ساتھ یہ لیگ مختلف وجوہات کے سبب ان مسلم کھلاڑیوں کی پہنچ سے باہر ہوتی گئی۔
پہلے سیزن میں آٹھ ٹیموں میں مختلف ممالک کے 23 مسلم كركٹر تھے۔ سنہ 2014 میں تمام ٹیموں کے کل کھلاڑیوں کی تعداد 177 ہے لیکن ان میں مسلمان کرکٹر صرف دس ہی ہیں جن میں شکیب الحسن واحد غیر ملکی ہیں۔ سنہ 2013 میں یہ تعداد 19 تھی۔

،تصویر کا ذریعہAFP Getty
پہلے سیزن میں لیگ میں سب سے زیادہ چھ مسلم کھلاڑیوں کو شامل کرنے والی ٹیم راجستھان رائلز کے ایک سینئر عہدیدار نے مجھے بتایا: ’یہ ایک حساس مسئلہ ہے۔ ہماری ٹیم نے کسی بھی کھلاڑی کو اس کے مذہب کی بنیاد پر کبھی نہیں لیا۔ شروع سے ہی ٹیم کی ضرورتوں اور اخراجات پر لگام لگانے کی کوشش جاری ہے۔ اس کا نقصان کسی ایک مذہبی برادری کو نہیں بلکہ تمام کھلاڑیوں کو اٹھانا پڑا ہے۔‘
راجستھان کی ٹیم میں اب واحد مسلم کھلاڑی لیفٹ آرم سپنر اقبال عبداللہ ہی ہیں۔
اس لیگ میں صرف سیاسی یا سٹریٹجک وجوہات کی وجہ سے ہی مسلم کھلاڑی باہر نہیں ہوئے۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے بھی اچانک سین سے غائب ہو گئے۔ کامران خان اس کی ایک مثال ہیں۔
دوسرے سیزن میں اس ٹیم میں اتر پردیش کے اعظم گڑھ کے ایک گاؤں سے آنے والے کامران خان کو لیا گیا تھا۔ وہ اپنے مختلف ایکشن اور آف سٹمپ کی پرفیکٹ ياركر کی وجہ سے اچانک سٹار بن گئے لیکن پھر چوٹ کی وجہ سے تیسرے سیزن میں لیگ سے باہر ہونے کے بعد انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں رہا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

،تصویر کا ذریعہBBC World Service
ابھی ایک سال پہلے تک وہ اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے تاہم گذشتہ سال انھوں نے سری لنکا کے كولٹ کرکٹ کلب کی نمائندگی کی لیکن واپس آنے کے بعد انھیں لینے والا کوئی نہیں تھا۔
یہ بھی سچ ہے کہ اس لیگ میں جموں کشمیر کے سپنر پرویز رسول کو بھی موقع ملا۔ پرویز رسول گذشتہ سال سے سن رائزرز حیدرآباد کے ساتھ ہیں۔
اننت ناگ کے رہنے والے پرویز رسول نے کہا: ’آئی پی ایل میرے لیے بڑی ایجوکیشن رہی ہے اور پہچان بھی ہے۔ اب مجھے لوگ سڑک پر پہچانتے ہیں۔ اس سے میری زندگی پر بہت فرق پڑا ہے۔‘
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ سب سے زیادہ نقصان پاکستانی کھلاڑیوں کو ہوا ہے۔ نومبر سنہ 2008 میں ممبئی میں ہونے والے حملے کے بعد سے کسی بھی پاکستانی کھلاڑی کو لیگ کی کسی ٹیم میں جگہ نہیں ملی۔
اس سے پہلے کے سیزن میں شاہد آفریدی (دکن چارجرز)، محمد آصف اور شعیب ملک (دہلی ڈیئرڈیولز)، محمد حفیظ، شعیب اختر، عمر گل اور سلمان بٹ (کولکتہ نائٹ رائیڈرز)، کامران اکمل، یونس خان اور سہیل تنویر (راجستھان رائلز) لیگ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔
تاہم دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے لیگ نے پاکستانی کھلاڑیوں سے دوری اختیار کرلی جو ہنوز جاری ہے۔

،تصویر کا ذریعہAFP
ماضی میں کولکتہ نائٹ رائڈرز کی ٹیم مینجمنٹ کا حصہ رہنے والے ایک اہلکار نے پاکستانی کھلاڑیوں کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا: ’سچ کہوں تو پاکستانی کھلاڑی آئی پی ایل میں بڑی کشش تھے۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ممبئی میں حملے کے باوجود حکومت ہند نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزے جاری کیے تھے۔ لیکن آئی پی ایل ٹیمیں چاہتے ہوئے بھی پاکستانی کھلاڑیوں کو پھر سے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکیں کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ بعض ایسے اداروں کی جانب سے ان میچوں میں رکاوٹ پیدا ہو سکتی ہے جن میں پاکستانی کھلاڑی کھیل رہے ہوں۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی بڑا نقصان اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔‘
پاکستانی کھلاڑیوں کو اس وقت نظر انداز کیا گیا تھا جب انھوں نے سنہ 2009 میں آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ جیتا تھا۔
اگرچہ سنہ 2012 میں پنجاب کنگز الیون نے پاکستان کے سابق تیز گیند باز اظہر محمود کو اپنی ٹیم میں لیا تھا، لیکن انھیں برطانوی شہری کی حیثیت سے شامل کیا گیا تھا۔







