’پیسہ بولتا ہے تو چپ بھی کراتا ہے‘

،تصویر کا ذریعہGetty
- مصنف, عبدالرشید شکور
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی
بی سی سی آئی کے صدر سری نواسن کو دیکھ کر نجانے کیوں مجھے وہ ضدی بچہ یاد آجاتا ہے جو اپنے بلے اور گیند کے ساتھ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا ضرور ہے لیکن جب آؤٹ ہوجاتا ہے تو گیند اور بلا لیے گھر کی راہ لے لیتا ہے۔
سری نواسن کی بین الاقوامی کرکٹ کو اپنی مکمل گرفت میں لینے کی خواہش ان کے بگ تھری کے منصوبے کے نتیجے میں پوری ہو چکی ہے اور آنے والے برسوں میں بھارت اپنے دوہمنواؤں کے ساتھ مل کر انٹرنیشنل کرکٹ کے تمام تر انتظامی اور مالی معاملات نمٹایا کرے گا۔
میچوں اور آمدنی کی تقسیم بھی اسی منصوبے کے تحت ہوا کرے گی۔
سری نواسن نے خود کو کرکٹ کی دنیا کا طاقتور ترین شخص بنوانے کے لیے پہلے بی سی سی آئی میں اپنے قدم مضبوط کیے جس میں انہیں اپنی مضبوط مالی حیثیت کی وجہ سے بڑی مدد ملی۔
یہ اسی کا اثر ہے کہ انھوں نے بی سی سی آئی کے قواعد وضوابط میں بھی رد و بدل کرتے ہوئے اپنی کمپنی انڈیا سیمنٹ کو آئی پی ایل میں داخل کیا جو چینئی سپر کنگز کی مالک ہے۔
بی سی سی آئی کے ایک سابق صدر اے سی متایا نے ان کے اقدام کو عدالت میں چیلنج بھی کیا۔ عدالت نے اسے مفادات کا ٹکراؤ کہا لیکن سری نواسن نے یہ کہہ کر اسے ماننے سے انکار کر دیا کہ عدالت نے فیصلہ نہیں دیا صرف آبرزویشن دی تھی۔ بعد میں دو ججوں نے اس بارے میں متفقہ فیصلہ نہیں دیا اور سری نواسن بی سی سی آئی کے خازن اور سیکریٹری کے عہدوں سے ہوتے ہوئے صدر بن گئے۔
بی سی سی آئی میں ناقابل چیلنج حیثیت حاصل ہو جانے کے بعد سری نواسن کے لیے بین الاقوامی کرکٹ میں حکمرانی کرنا کبھی بھی مشکل نہیں رہا۔ انہوں نے اپنی اور بی سی سی آئی کی طاقتور پوزیشن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آئی سی سی کے کئی اہم فیصلوں کو چیلنج کیا اور اپنی ہر بات منوائی۔
سابق کپتان بشن سنگھ بیدی شاید واحد بھارتی کرکٹر ہیں جو بگ تھری کے منصوبے کی کھل کر مخالفت کرتے ہیں اور ان کے پاس اس کی وجہ موجود ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
’جب انسان کو طاقت ملتی ہے تو وہ اندھا ہوجاتا ہے اور پھر ایسی ہی حرکتیں کرتا ہے۔ مجھے ڈ کٹیٹر والی ان حرکتوں پر سخت اعتراض ہے۔ آخر صرف تین ملکوں کا راج کیوں؟‘
’اس منصوبے کی تکمیل کے بعد من مانیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ آج اکیسویں صدی میں ڈکٹیٹر والا رویہ ممکن نہیں ہے۔ آج کا دور جمہوری دور ہے۔ سب کے ساتھ چلنا اور سب کو ساتھ لے کر چلنا بہت ضروری ہے۔‘
بشن سنگھ بیدی کے خیال میں جو کچھ بھی ہوا ہے وہ پیسے کی طاقت ہے۔
’پیسہ اگر بولتا ہے تو وہ ُچپ بھی کراتا ہے۔ اگر کوئی اس بارے میں خاموش ہے تو اس کی بھی وجہ ہے۔ بھارت میں آئی پی ایل کا جو ہنگامہ ہو رہا ہے یہ تو غدر ہے۔‘
بھارتی سینیئر صحافی پردیپ میگزین اس بات پر حیران ہیں کہ بی سی سی آئی میں موجود تمام اہم شخصیات سری نواسن کے کسی بھی فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
’پورا کرکٹ بورڈ سری نواسن کی مٹھی میں ہے حالانکہ نریندر مودی ایک کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر بھی ہیں لیکن وہ بھی چپ سادھے ہوئے ہیں۔ ارون جیٹلی، جو پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر ہیں، وہ کرکٹ بورڈ کے ممبر بھی ہیں لیکن اس گمبھیر صورتحال میں وہ بھی خاموش ہیں۔‘
پردیپ میگزین کو بڑے بڑے سابق کرکٹروں کی بگ تھری پر خاموشی پر قطعاً حیرانی نہیں ہے۔
’بھارت کے کئی سابق ٹیسٹ کرکٹر بی سی سی آئی سے کسی نہ کسی طرح فائدے اٹھا رہے ہیں۔ کمنٹیٹر بی سی سی آئی کے ہیں۔ جو بڑے کھلاڑی ہیں انہیں لاکھ روپے سے زیادہ پنشن ملتی ہے۔ وہ کرکٹر جو بھارتیوں کی سوچ بدل سکتے ہیں انہیں ایک طرح سے خرید لیا گیا ہے۔ بشن سنگھ بیدی کے سوا کوئی بھی بولنے کو تیار نہیں ہے۔
آئی پی ایل میں مبینہ کرپشن کے بارے میں سپریم کورٹ سات مارچ کو فیصلہ سنانے والی ہے۔ سپریم کورٹ کی قائم کردہ کمیٹی کی رپورٹ بھی اس کے پاس آچکی ہے اور بقول بشن سنگھ بیدی اب عدلیہ ہی ہے جو بھارت کو بچا سکتی ہے۔







