انگلینڈ کے کرکٹر معین علی کے والد منیر علی، جنھوں نے اپنے بیٹے کو انٹرنیشنل کرکٹر بنانے کے لیے دن رات محنت کی

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

    • مصنف, عبدالرشید شکور
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

یہ کہانی اگرچہ انگلینڈ کے کرکٹر معین علی کی ہے لیکن اس کہانی کے اندر ایک اور کہانی موجود ہے جس کا مرکزی کردار معین علی کے والد منیر علی ہیں۔

معین علی اگرچہ برمنگھم میں پیدا ہوئے ہیں لیکن ان کے خاندان کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے میرپور سے ہے۔

معین علی کے دادا میرپور سے انگلینڈ جا بسے تھے لیکن یہ خاندان آج بھی اپنے آبائی وطن سے جذباتی وابستگی رکھتا ہے۔

آج معین علی جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں ان کی اپنی محنت کے ساتھ ساتھ ان کے والد منیر علی کی انتھک جدوجہد نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ معین علی کے والد نے مالی پریشانیوں اور معاشرے کے منفی رویے کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور اپنے چاروں بیٹوں کو قابل ذکر مقام تک پہنچایا۔

ان کے دو بیٹے کرکٹر بنے، جن میں سے ایک کو دنیا آج معین علی کے نام سے جانتی ہے۔

منیر علی

،تصویر کا ذریعہMunir Ali

،تصویر کا کیپشنآج معین علی جس مقام پر کھڑے ہیں اس میں ان کی اپنی محنت کے ساتھ ساتھ ان کے والد منیر علی کی انتھک جدوجہد نمایاں حیثیت رکھتی ہے

’معین شرارتی نہیں مگر تیز طرار بچہ تھا‘

منیر علی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے معین علی کے بچپن کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ بچپن میں شرارتی نہیں تھے اور نہ ہی کبھی ان کی باہر سے کوئی شکایت آئی۔

’وہ تیز طرار ضرور تھا، جیسا کہ بچے ہوتے ہیں۔ وہ بہت متحرک رہتا تھا۔ کرکٹ کا اسے بچپن سے ہی شوق تھا کیونکہ میں خود کرکٹ کھیلتا تھا۔‘

’میرے بڑے بیٹے قدیر علی بھی کرکٹر تھے جو اب ووسٹرشائر کی ٹیم کے بیٹنگ کوچ ہیں جبکہ میرے بھتیجے کبیر علی نے بھی ٹیسٹ کرکٹ میں انگلینڈ کی نمائندگی کی ہے۔ معین ان کے ساتھ کرکٹ کھیلا کرتے تھے۔ وہ صرف آٹھ سال کے تھے جب کاؤنٹی کی انڈر 11 کی طرف سے کھیلنا شروع کر دیا تھا۔‘

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’ایک بیٹے کو انٹرنیشنل کرکٹر بنانا چاہتا تھا‘

منیر علی بتاتے ہیں کہ ’انگلینڈ میں رہتے ہوئے مجھ جیسے ایشیائی کے لیے زندگی بہت مشکل تھی۔‘

’میں نے بہت سخت دن دیکھے۔ میں ہسپتال میں کام کرتا تھا جہاں ڈیوٹی کبھی دن کی ہوا کرتی تھی اور کبھی رات کی ہوتی تھی۔ پھر میں نے یہ کام چھوڑ دیا کیونکہ میں اپنے بچوں کو وقت نہیں دے پا رہا تھا۔‘

منیر علی وہ وقت یاد کرتے ہیں جب انھوں نے اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے فارم ہاؤس میں مرغیاں ذبح کروا کر گھر گھر جا کر فروخت کیں۔

وہ کہتے ہیں ’میں نے ٹیکسی بھی چلائی۔ اس ٹیکسی کو میں دن میں چلاتا تھا اور میرے جڑواں بھائی (جو ٹیسٹ کرکٹر کبیر علی کے والد ہیں) وہ رات کو ڈرائیونگ کرتے تھے۔‘

’یہ آسان نہیں تھا۔۔۔ مجھے یاد ہے ایک دن میں بھوکا رہا تھا۔ میرے بیٹے قدیر علی کا ایک میچ سامرسیٹ میں تھا۔ اس وقت میرے پاس صرف گاڑی میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے تھے۔ میرے پاس ایک پاؤنڈ رہ گیا تھا، جس سے میں نے راستے میں چپس کا پیکٹ خریدا تھا وہ بھی میں نے قدیر علی کے ساتھ شیئر کیا اور رات کو گھر واپسی پر میں نے کھانا کھایا تھا۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ʹمیرے چاروں بیٹے کرکٹ کھیلتے تھے لیکن معین علی میں ایک خاص ٹیلنٹ موجود تھا۔ میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ان میں سے ایک کو میں نے انٹرنیشنل کرکٹر بنانا ہے۔ میں نے معین سے بات کی اور کہا کہ مجھے صرف دو سال دے دو۔ باقی کی زندگی تمہاری ہے۔‘

’میری اس بات کا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر معین علی نے آگے بڑھنا ہے تو اس کے لیے نمبر ون ہونا ضروری ہے اور نمبر ون کے لیے بہت سخت محنت کی ضرورت تھی۔‘

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ بھی پڑھیے

منیر علی اپنے بیٹوں کی کرکٹ میں اس قدر منہمک ہو گئے تھے کہ انھیں اپنی صحت کی بھی فکر نہیں رہتی تھی۔

ایک دن وہ اپنے بیٹے کو سکول لے جا رہے تھے کہ انھیں دل کا ہلکا دورہ پڑا اور وہ سات روز تک ہسپتال میں رہے لیکن ان کا ذہن بیٹوں کی کرکٹ کی طرف لگا ہوا تھا۔

گھر واپس آتے ہی اگلے دن وہ اپنے بیٹے کامیچ دیکھنے چلے گئے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کے لیے گھر آنے والوں کو پتا چلا کہ وہ گھر میں نہیں۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مارک گریٹ بیچ کا معین پر طنزیہ فقرہ

منیر علی بتاتے ہیں کہ نیوزی لینڈ کے مارک گریٹ بیچ وارک شائر کے کوچ تھے۔

’انھوں نے معین علی کو طنزیہ انداز میں مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’تم اگلے پانچ سال تک فرسٹ الیون میں آنے کا بھی مت سوچنا‘ حالانکہ معین علی نے ٹیم کی مشکل صورتحال میں آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے نصف سنچری بنائی تھی لیکن انھیں اگلے ہی میچ میں ڈراپ کر دیا تھا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’جب معین نے مجھے یہ بات بتائی تو میں نے انھیں وارک شائر چھوڑ کر ووسٹرشائر میں شامل ہونے کے لیے کہا۔‘

منیر علی کا کہنا ہے ʹمجھے اپنے بیٹے کی بہترین پرفارمنس اور کریئر عزیز تھا۔ صحافی جارج ڈوبیل اور کاؤنٹی ممبر راجر نیومین نے میری بڑی مدد کی۔‘

منیر علی اس بات کو واضح طور پر محسوس کرتے ہیں کہ انگلینڈ میں اب بھی ایشیائی اور غیر ایشیائی باشندوں کے درمیان امتیازی سلوک موجود ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سپارک ہل کے جس علاقے میں رہتے ہیں یہاں بڑے باصلاحیت کرکٹرز موجود ہیں لیکن ترجیح ان لڑکوں کو ملتی ہے جو بڑے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور جو گرامر سکول میں پڑھتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ یوتھ کرکٹ میں انڈر 10 سے انڈر 17 تک اچھی کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز میں ساٹھ ستر فیصد ایشیائی ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے آگے کتنے کرکٹرز کو کنٹریکٹ ملتا ہے؟

معین علی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’جب میں ٹیم سے ڈراپ ہوں گا تو آپ کو بہت مایوسی ہو گی‘

منیر علی بتاتے ہیں کہ جب معین علی کو پہلی بار انگلینڈ کی ٹیسٹ ٹیم میں سلیکٹ کیا گیا تو انھوں نے فون کر کے یہ اطلاع دی۔

’میری تو خوشی کی انتہا نہ تھی لیکن معین نے فوراً مجھے کہا کہ آپ خوش ضرور ہوں لیکن بہت زیادہ خوش نہ ہوں کیونکہ جب میں ٹیم سے ڈراپ ہوں گا تو آپ کو بہت مایوسی ہوگی۔‘

معین علی نے اپنے ٹیسٹ کریئر کا آغاز سنہ 2014 میں سری لنکا کے خلاف لارڈز میں کیا تھا جس کی پہلی اننگز میں انھوں نے 48 اور دوسری اننگز میں چار رنز بنائے تھے تاہم ہیڈنگلے کے اگلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں انھوں نے ناقابل شکست 108رنز بنائے تھے مگر انگلینڈ کی ٹیم نے آخری بیٹسمین جیمز اینڈرسن کی وکٹ اس وقت گنوا کر یہ میچ ہارا جب میچ کی صرف ایک گیند باقی رہتی تھی۔

منیر علی کا خیال ہے کہ اگر معین علی اس ٹیسٹ میں سینچری بنانے میں کامیاب نہ ہوتے تو ان کا ٹیسٹ کریئر وہیں ختم ہو جاتا۔

معین علی کے والد کا کہنا ہے کہ انھیں پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب معین علی پی ایس ایل کھیل رہے تھے تو وہ پاکستان آئے تھے۔

’اس بار بھی میرا ارادہ پاکستان آنے کا تھا لیکن چونکہ میں وارک شائر میں معین علی کرکٹ اکیڈمی کا ڈائریکٹر ہوں جہاں ابھی بہت کام کرنے ہیں اس لیے میں پاکستان نہیں آسکا۔‘