آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سمیع چوہدری کا کالم: ایشیا کپ میں ’پاکستان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی‘
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
ہانگ کانگ کوئی ایسی بھی گئی گزری ٹیم نہیں جیسی پاکستانی بولنگ کے خلاف یکسر بے وُقعت اور بے بس سی نظر آئی۔ پچھلی بار ایشیا کپ میں تو وہ انڈیا کو ہراتے ہراتے رہ گئے تھے۔
اس بار بھی کوالیفائرز میں یہ ٹیم عرب امارات، سنگا پور اور کویت کو شکست دے کر گروپ سٹیج تک پہنچی ہے اور پچھلے ہی میچ میں، انڈیا کے خلاف، بھونیشور کمار، رویندرا جڈیجا اور یزویندرا چیہل پہ مشتمل بولنگ اٹیک کے سامنے اسی بیٹنگ لائن نے ڈیڑھ سو سے زائد رنز بنا لیے تھے۔
سو، تمام تر خدشات کے باوجود کسی کو بھی ہانگ کانگ سے ایسی بدنما کارکردگی کی توقع نہ تھی جو گذشتہ شب دیکھنے کو ملی۔ یہ عرب امارات کی تاریخ کا کم ترین ٹی ٹونٹی ٹوٹل تھا۔ یہ ہانگ کانگ کی اپنی پست ترین کاوش تھی۔ یہ مارجن کے اعتبار سے پاکستان کی سب سے بڑی جیت تھی۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ریکارڈز گذشتہ شب ٹوٹ گئے۔
اس سارے منظرنامے کی توجیہہ دو پہلوؤں سے کی جا سکتی ہے کہ یا تو پاکستانی بولنگ ہی ایسی تباہ کن تھی کہ مخالف بلے باز سمجھ ہی نہ پائے یا پھر مخالف بیٹنگ ہی انٹرنیشنل کرکٹ کے آداب و اطوار سے نابلد تھی کہ پلک جھپکتے میں ہی منہدم ہو گئی۔
دوسرا مفروضہ اس قدر قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ یہی بیٹنگ لائن انڈیا جیسے اچھے اٹیک کے خلاف ڈیڑھ سو رنز بنا چکی تھی۔
پاکستانی بولنگ کی بہترین کارکردگی کی تحسین سے پہلے ہانگ کانگ کی بولنگ کا تذکرہ ضروری ہے جو لائقِ تحسین بھی تھی اور لائقِ تنقید بھی۔ اننگز کے ابتدائی اوورز میں احسان، غضنفر اور شکلا کی بولنگ محمد رضوان جیسے زیرک بلے باز کے لیے بھی معمہ بنی رہی اور انھیں بازو کھولنے کا کوئی موقع نہ ملا۔
کپتان نزاکت خان اپنے آپشنز کا سمجھداری سے استعمال کر رہے تھے اور پاکستان کو کھل کھیلنے کا موقع نہیں دے رہے تھے۔ مگر ڈیتھ اوورز کے لیے بولرز کا کوٹہ بچانے اور ترتیب درست رکھنے میں وہ گڑبڑا گئے۔ اسی گڑبڑاہٹ میں اضافی نقصان تب ہوا جب پے در پے چھکوں کے خوف میں ڈوبے ان کے بولرز ایک ایک گیند پہ پانچ پانچ ایکسٹرا رن دینے لگے۔
ڈیتھ اوورز میں وائیڈ پھینکے جانا عین ممکن ہے کہ بولرز آف سٹمپ کے باہر سلو یارکرز پھینک کر گیند کو بلے کی پہنچ سے دور لے جانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسی گیند کا وائیڈ قرار پانے کے ساتھ ساتھ وکٹ کیپر کو غچہ دے کر باؤنڈری پار کر جانا سبھی پلان چوپٹ کر چھوڑتا ہے۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
اور ہانگ کانگ کے ساتھ یہ بدقسمتی ایک سے زائد بار ہوئی۔ اس کا اضافی نقصان یہ ہوا کہ پاکستان کو 170 تک محدود رکھنے کے خواب ہوا ہو گئے اور خوشدل شاہ کی آخری اوور میں یلغار نے ایک ایسا ہدف متعین کر چھوڑا کہ جس کا تعاقب ہانگ کانگ جیسی ٹیم کے لیے ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے مترادف تھا۔
اس کے بعد ویسے بھی نزاکت خان کے بلے بازوں کے پاس کچھ زیادہ امکانات رہے نہیں تھے۔ نسیم شاہ اور دھانی کے پہلے پہلے اوورز اگرچہ قدرے خاموش رہے مگر دوسرے ہی اوور میں نسیم شاہ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ نئے گیند کے ساتھ ان کی پیس کس قدر مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔ فی الوقت نسیم شاہ اپنے کرئیر کی بہترین فارم میں ہیں۔
پچھلے میچ کے بعد، محمد رضوان اپنی سست رفتاری کے باعث خصوصی تنقید کی زد میں آئے تھے مگر اس کے باوجود یہاں آتے ہی انھوں نے ناقدین کا منہ بند کرنے کی کوشش نہیں کی۔
سمیع چوہدری کے دیگر کالم پڑھیے
کیونکہ بہرحال یہ ایک ناک آؤٹ میچ تھا اور اگر بڑی ٹیمیں ڈھیلی پڑ جائیں تو ہانگ کانگ جیسی ابھرتی ہوئی ٹیمیں انھیں حیران کرنے کا کوئی موقع آسانی سے جانے نہیں دیتیں۔
رضوان نے اپنی سی ہی اننگز کھیلی۔ کیونکہ رضوان اور بابر کے درمیان ایک ان کہا سا معاہدہ ہے کہ اگر ایک جلد آؤٹ ہو جائے تو دوسرا بہرطور آخری اوور تک جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہی کچھ محمد رضوان نے کیا تاآنکہ خوشدل شاہ کے چھکوں نے بظاہر بے کیف سی اننگز میں رنگ بھر دیا۔
جس طرح سے شاداب خان اور محمد نواز نے بیچ کے اوورز میں حریف بلے بازوں کا ناطقہ بند کیے رکھا، وہ سپر فور مرحلے میں پاکستان کے لیے کلیدی کردار ثابت ہوں گے کیونکہ عرب امارات میں وکٹیں کیسی بھی تشکیل دے لی جائیں، سپنرز فیصلہ کن ثابت ہو کر ہی رہتے ہیں۔
لیگ سپن اور لیفٹ آرم سپن کا کمبینشن بھی پاکستان کے لیے اضافی فائدے کا سبب ہو گا۔
ہانگ کانگ کے لیے جیت تو پہلے ہی لگ بھگ خارج از امکان تھی مگر ایسی ہار بھی شاید ان کے وہم و گماں سے باہر تھی۔ دوسری جانب اس دھماکے دار بولنگ پرفارمنس سے پاکستان نے سپر فور مرحلے میں سبھی ٹیموں کے بلے بازوں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔