سمیع چوہدری کا کالم: لیکن تب تک سبھی محمد عامر بن چکے تھے

،تصویر کا ذریعہTwitter/@TheRealPCB
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
جب سہل پسندی کوشش کی جگہ لے لیتی ہے تو مقدر قسمت پر غالب آ جاتا ہے۔ اعتماد بے یقینی میں بدل جاتا ہے اور خامیاں خوبیوں کو اپنی گرد میں دبا دیتی ہیں۔
پاکستان کے اس سکواڈ کو انگلینڈ پہنچے دو ماہ ہو چکے ہیں، قرنطینہ اور بائیو سکیورٹی ببل میں زندگی کی مشکلوں سے سوا یہ ہے کہ اتنی ریاضت کے بعد بھی یہ ٹیم ابھی تک فتح کے ذائقے سے محروم ہے۔
ٹاس جیتنا کسی کے اختیار میں نہیں۔ ہو سکتا ہے بابر اعظم ٹاس جیتتے اور پاکستان پہلے بولنگ کرتا تو وکٹ اس قدر اعصاب پر سوار نہ ہوتی اور ذہنی خلجان بھی بڑھنے نہ پاتا۔
لیکن ٹاس ہارنے کے بعد بھی بابر اعظم جیت کے لیے خاصے پر عزم تھے۔ وہ اس وکٹ پر بڑا سکور کرنا چاہتے تھے اور انھوں نے کیا۔ اس وکٹ پر 190 رنز وننگ ٹوٹل تھا۔ یہ وہ مجموعہ تھا کہ اگر پاکستان کا بولنگ اٹیک صرف نارمل بولنگ ہی کرتا تو جیت یقینی تھی۔
سمیع چوہدری کے دیگر کالم
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
لیکن پاکستانی بولنگ شروع سے ہی نارمل نہیں تھی۔ گو یہ وکٹ پاکستانی بولنگ کے لیے اجنبی نہیں تھی، گیند بلے پر آ رہا تھا اور جب بولر کو یہ معلوم ہو کہ اوور کی کم از کم تین گیندوں پر بلے باز چانس لے گا تو حکمتِ عملی وضع کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
وکٹ بیٹنگ کے لیے بھرپور مدد فراہم کر رہی تھی۔ ایسی وکٹ پر فیلڈنگ ٹیم کو دفاعی حکمتِ عملی ہی اپنانا چاہیے۔ لیکن دفاع حملے سے کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ حملے میں اپنی قوت کا بھرپور اظہار درکار ہوتا ہے، دفاع میں اپنی قوت کا بھرپور ارتکاز درکار ہوتا ہے۔

،تصویر کا ذریعہTwitter/WisdenCricket
ایسی وکٹ پر بلے باز کیسی ہی فارم میں کیوں نہ ہو، اگر صرف مڈل سٹمپ لائن برقرار رکھ کر متواتر اچھی لینتھ کو ہدف بنایا جائے تو بلے باز کے بور ہوتے دیر نہیں لگتی اور ٹی ٹونٹی میں بلے باز کی بوریت بولر کی جیت کے مترادف ہے۔
سوال بس اتنا ہے کہ پہلے کون بور ہوتا ہے۔
یہاں پاکستان کے لیے برا یہ ہوا کہ بیئر سٹو سے پہلے ہی پاکستانی بولر بور ہو گئے اور دوسرے ہی اوور میں کچھ ایسی بولنگ دیکھنے کو ملی جیسے وکٹ پر گھاس ہو، مطلع ابر آلود ہو، چار سلپیں کھڑی ہوں، گیند سیم ہو رہا ہو اور بولر جان بوجھ کر آف سٹمپ کےباہر ڈرائیونگ لینتھ پر بلے باز کو لبھانے کی کوشش کر رہا ہو۔
ایسی وکٹ پر فہیم اشرف، حسن علی اور رمان رئیس جیسے بولرز کامیاب رہتے ہیں جو رفتار کے بدلاؤ کے ساتھ کٹر پھینک سکیں۔ مگر شومئی قسمت کہ اس سکواڈ میں کوئی بھی ایسا میڈیم پیسر موجود نہیں جو مڈل اوورز کا بار اپنے سر لے سکے۔
شاہین شاہ آفریدی پورے میچ میں تھکے تھکے سے دکھائی دیے۔ جسمانی لحاظ سے وہ میچ میں بھرپور موجودگی کا احساس دلا رہے تھے۔ مگر ذہن شاید تھک چکا ہے جو یہی بھول گیا کہ ان کے جسم پر کِٹ کس رنگ کی ہے اور ہاتھ میں گیند کس رنگ کا۔

،تصویر کا ذریعہTwitter/WisdenCricket
بابر اعظم ابھی اس کردار میں نئے نئے ہیں۔ مگر سکور بورڈ کا مجموعہ ہی کچھ ایسا تھا کہ نئے سے نیا فیلڈنگ کپتان بھی پر اعتماد رہتا۔ بابر پر اعتماد تھے بھی مگر مورگن کا بلا چلتے ہی ان کی دنیا دھندلانے لگی۔ اوورز کی جمع تفریق میں گڑ بڑ کر گئے اور فیلڈ سیٹنگ میں بھی ایک دو بنیادی غلطیاں ہو گئیں۔
ویسٹ انڈیز میں ہونے والے 2010 کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کا سیمی فائنل بھی پاکستان نے ایسا ہی ٹوٹل کر کے ہارا تھا۔ وہ پہلا موقع تھا جب پاکستان نے ٹی ٹوئنٹی میں 190 سے زائد رنز کر کے میچ ہارا تھا۔ اب یہ شکست اس ٹیم کے ماضی کے زخم کریدے گی۔
محمد عامر کی انجریز اگرچہ ماضی میں کئی بار شکوک و شبہات کو جنم دیتی رہی ہیں مگر مثبت پسندی کا تقاضا یہی ہے کہ ان کی حالیہ انجری کو وکٹ کی سرد مہری اور دو اوورز کے اکانومی ریٹ سے نہ جوڑا جائے کیونکہ اپنے تئیں تو انھوں نے بھرپور کوشش کی کہ میچ میں واپس آئیں۔
اسی امید میں وہ دوبارہ باؤنڈری لائن کے پاس بھی لڑکھڑاتے رہے مگر بابر اعظم نے ان کی بجائے گیند پھر شاہین شاہ آفریدی کو تھما دیا کیونکہ تب تک پاکستانی بولنگ ساری کی ساری ہی لڑکھڑا چکی تھی۔ تب تک سب ہی محمد عامر بن چکے تھے۔










