پلوشہ بشیر: قدامت پسند گھرانے کی ’آل راؤنڈر لڑکی‘ جس نے بیڈمنٹن میں بین الاقوامی کامیابیاں حاصل کیں

    • مصنف, عبدالرشید شکور
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

پلوشہ بشیر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے آٹھ سال بیڈمنٹن کی قومی سنگلز چیمپئن رہی ہیں۔

انھوں نے تین مرتبہ قومی بیڈمنٹن چیمیئن شپ میں ٹرپل کراؤن حاصل کیا ہے یعنی بیک وقت انھوں نے سنگلز، ڈبلز اور مکسڈ ڈبلز ٹائٹل جیتے ہیں۔ وہ اس وقت ڈبلز میں قومی چیمپئن ہیں۔

پاکستان کے لیے بین الاقوامی سطح پر کھیلنے والی کھلاڑی پلوشہ بشیر کو بھی کئی دوسری کھلاڑیوں کی طرح اپنے کیریئر میں مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

لیکن کھیل سے اپنے جنون کی بدولت وہ ہر مشکل پر قابو پاتے ہوئے قومی اور بین الاقوامی سطح پر خود کو منوانے میں کامیاب رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خواتین کوچز کی کمی

بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے پلوشہ بشیر کہتی ہیں ′ایسے معاشرے میں جہاں مردوں کی بالادستی ہو خواتین کھلاڑیوں کے لیے خود کو منوانا آسان نہیں ہے حالانکہ اب آہستہ آہستہ چیزیں بدل رہی ہیں۔

'لیکن خواتین کھلاڑیوں کو سب سے بڑی دشواری یہ ہوتی ہے کہ جب وہ ٹریننگ سینٹرز میں ٹریننگ کے لیے جاتی ہیں تو وہاں بہت کم خواتین ہوتی ہیں۔ زیادہ تر لڑکے اور مرد وہاں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ کوچز بھی مرد حضرات ہوتے ہیں۔'

پلوشہ کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لڑکیوں میں جھجھک رہتی ہے۔

'ابتدا میں یہ سفر دشوار گزار ہوتا ہے۔ والدین بھی گھبراتے ہیں وہ اپنی بچیوں کو اکیلے ٹریننگ کے لیے نہیں بھیجتے۔ اکثر والدین اپنی بچیوں کے ساتھ جاتے ہیں تاکہ وہ یہ یقین کرسکیں کہ ان کی بچی محفوظ ماحول میں کھیل رہی ہے۔'

ابتدا میں پلوشہ کی والدہ بھی ان کے ساتھ ٹریننگ میں جایا کرتی تھیں۔ اس لیے انھیں زیادہ مشکل نہیں ہوئی اور انھوں نے کلب کی ممبرشپ بھی لے رکھی تھی اور وہ سن سیٹ کلب میں کھیلا کرتی تھیں۔

خواتین کھلاڑیوں کو خواتین کوچز کی کمی کیوں محسوس ہوتی ہے؟

پلوشہ بتاتی ہیں کہ 'مجھے اچھے کوچز ملے، اچھا ماحول ملا لیکن کئی بار آپ کو خاتون کوچ کی موجودگی ضروری محسوس ہوتی ہے جس سے آپ کھل کر اپنے مسائل اور معاملات شیئر کرسکیں ۔اسی لیے بہت سی لڑکیاں کھیلوں میں نہیں آتیں کیونکہ خواتین کوچز کی تعداد بہت کم ہے۔'

پلوشہ بشیر کا کہنا ہے وہ قدامت پسند فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ شروع میں جب انھیں ٹورنامنٹ کھیلنے شہر سے باہر جانا پڑتا تو 'میرے خاندان کے لوگ میرے والدین پر تنقید کرتے تھے کہ کھیل میں کیا رکھا ہے۔

'یہ لڑکی تنہا باہر جا رہی ہے اسے کیوں اجازت دے رہے ہو؟'

وہ بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے ٹائٹلز جیتنے شروع کردیے اور اپنا نام منوانا شروع کردیا تو پھر خاندان والوں کی سوچ بھی تبدیل ہوگئی۔

'سچ تو یہ ہے کہ والدین کی حمایت کے بغیر اپ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ میں اس لحاظ سے خوش قسمت ہوں کہ میرے والدین نے شروع سے میری حوصلہ افزائی کی اور اب تک کرتے آرہے ہیں۔'

شٹل کاک سے پہلا تعلق

پلوشہ بشیر بچپن میں 'آل راؤنڈر قسم کی لڑکی' تھیں اور گلی کرکٹ میں دلچسپی رکھتی تھیں۔

'میں جب لائسیئم (سکول) میں اے لیول کررہی تھی تو میں وہاں کئی کھیلوں میں مصروف تھی جن میں تھرو بال، نیٹ بال اور ٹیبل ٹینس قابل ذکر تھے۔ میں تھرو بال چیمپئن شپ میں بہترین کھلاڑی قرار پائی تھی۔ گریجویشن کرتے وقت میرے سب سے زیادہ سپورٹس سرٹیفکیٹس تھے۔ میں کرکٹ میں آگے جانا چاہتی تھی لیکن والدین نے کہا کہ مجھے کوئی ان ڈور کھیل اپنانا چاہیے جس کے بعد میں نے بیڈمنٹن شروع کیا۔

وہ صرف دس یا گیارہ سال کی تھیں جب ریکٹ اور شٹل کاک سے ان کا پہلا تعلق قائم ہوا۔

'پہلے میرے والد نے مجھے لکڑی کے ریکٹس لاکر دیے جس کے بعد میرے بھائی نے مجھے بیرونِ ملک سے ریکٹس لاکر دیے۔ میرے کوچز کو یہ محسوس ہوا کہ مجھ میں ٹیلنٹ ہے اور میں اس کھیل میں کامیاب ہوسکتی ہوں تو انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں قومی چیمپئن شپ میں حصہ لوں۔'

پلوشہ بشیر کو یاد ہے کہ انھوں نے پہلی بار قومی بیڈمنٹن چیمپئن شپ میں حصہ لیا اور پہلی ہی شرکت میں مکسڈ ڈبلز ٹائٹل جیت لیا۔

′میرے لیے وہ بڑے فخر کی بات تھی۔ میں نے اس وقت کی سینیئر کھلاڑیوں کو شکست دی تھی۔ میں نے سینیئر کھلاڑیوں کی ٹریننگ کے انداز کے بارے میں سمجھنا شروع کیا تاکہ اپنے کھیل میں بہتری لاسکوں۔ میں وہ وقت نہیں بھول سکتی جب میں نے قومی سطح کے ٹورنامنٹس جیتنا شروع کیے تو میرے والد بڑے فخر سے ہر ایک کو یہ کہا کرتے تھے اس سے ملو یہ میری بیٹی ہے۔ یہ پاکستان نمبر ایک کھلاڑی اور قومی چیمپئن ہے۔'

پلوشہ بشیر اپنی کامیابی میں اپنی اساتذہ کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔

′اسکول کالج اور یونیورسٹی ہر جگہ مجھے ٹورنامنٹس کھیلنے کے لیے خصوصی اجازت مل جاتی تھی۔ کورس کی تکمیل میں میری اساتذہ میری مدد کرتی تھیں۔ میری تمام پرنسپل نے میرا بہت ساتھ دیا۔ ان کے تعاون کے بغیر میرا کریئر جاری رکھنا ممکن نہ تھا۔'

چند ہی ڈپارٹمنٹس باقی بچے ہیں

پلوشہ بشیر قومی سطح پر ہونے والے مقابلوں میں نیشنل بینک کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اس سے قبل وہ پاکستان واپڈا میں شامل تھیں۔ انہیں افسوس ہے کہ پاکستان میں اب بہت کم ادارے رہ گئے ہیں۔

′ادارے کھلاڑیوں کے کریئر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں کیونکہ وہ انہیں ملازمت فراہم کرتے ہیں جسے یہ کھلاڑی معاشی تفکرات سے آزاد ہو کر اپنے کھیل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔'

'کھلاڑی جب کھیل رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے اداروں کی وجہ سے ہی پہچانے جاتے ہیں۔ کرکٹ کی مثال سب کے سامنے ہے جس میں ادارے کرکٹرز کو پرکشش کنٹریکٹ دیتے ہیں جس سے نوجوان کرکٹرز میں بھی دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ بیڈمنٹن میں ادارے بہت کم ہیں جیسا کہ نیشنل بینک، ریلویز، واپڈا، سوئی نادرن گیس، یہ تعداد جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی زیادہ مقابلہ بھی بڑھے گا اور کھلاڑیوں کا فائدہ ہوگا انہیں ملازمتیں بھی ملیں گی اور وہ یکسوئی سے اپنی کارکردگی پر توجہ دیں گے کھلاڑیوں کو جو مالی فوائد ملتے ہیں انہی سے وہ اس کھیل کے اخراجات بھی پورے کرتے ہیں۔ بدقسمتی سے کئی اداروں نے اپنی ٹیمیں ختم کردی ہیں اسی لیے نئے کھلاڑی اس کھیل میں نہیں آرہے ہیں کیونکہ یہ بہت مہنگا کھیل ہے اور ہر ایک کے لیے اس کے اخراجات پورے کرنا ممکن نہیں۔'

پڑوسی ممالک سے موازنہ

پلوشہ بشیر کے خیال میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کارکردگی میں اسی وقت بہتری آسکتی ہے جب وہ زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی ٹورنامنٹس میں حصہ لیں گے۔

′عالمی رینکنگ میں بہتر پوزیشن حاصل کرنے کے لیے سال کے دس گیارہ انٹرنیشنل ٹورنامنٹس کھیلنا لازمی ہوتے ہیں لیکن ہم پاکستانی کھلاڑی فنڈز نہ ہونے کے سبب ان مقابلوں میں حصہ لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ میری بھی خواہش رہتی ہے کہ میں ہر ٹورنامنٹ میں حصہ لوں لیکن وسائل کی کمی آڑے آتی ہے۔'

پلوشہ کہتی ہیں 'میری سب سے بہترین سنگلز رینکنگ دو سو چھ تھی میں چاہتی ہوں کہ اس میں بہتری لاؤں تاکہ اولمپکس میں حصہ لینے کا خواب پورا ہوسکے۔ ہم اپنے پڑوسی ملکوں سے موازنہ کریں تو ان ملکوں کے پاس کھیل کا ڈھانچہ بہت مضبوط ہے۔ سہولتیں بہت ہیں۔ ٹریننگ کا معیار اچھا ہے انہیں غیرملکی کوچز کی خدمات بھی حاصل ہیں۔ اگر ہمارے کھلاڑیوں کو بھی اسی طرح کی سہولتیں ملیں تو ہم بھی بین الاقوامی سطح پر اچھی کارکردگی دکھاسکتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے یہاں ٹریننگ کی سہولتیں نہیں ہیں۔ نوجوان کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ موجود ہے لیکن ان کے لیے صحیح سمت متعین نہیں ہو پارہی ہے۔'

انٹرنیشنل کیریئر

پلوشہ بشیر کو اس بات کی بہت خوشی ہے کہ وہ واحد پاکستانی بیڈمنٹن کھلاڑی ہیں جنہوں نے ساؤتھ ایشین گیمز کے ویمنز سنگلز مقابلے میں کانسی کا تمغہ جیتا ہے۔ انھوں نے یہ تمغہ 2010 میں ڈھاکہ میں منعقدہ ساؤتھ ایشین گیمز میں حاصل کیا تھا۔

2015 میں منعقدہ بحرین انٹرنیشنل سیریز میں انھوں نے سارہ مہمند کے ساتھ چاندی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔

2016 میں پاکستان انٹرنیشنل سیریز میں انھوں نے ڈبل کراؤن حاصل کیا تھا یعنی اس ٹورنامنٹ میں انھوں نے انفرادی ٹائٹل جیتنے کے علاوہ ڈبلز مقابلے میں بھی کامیابی حاصل کی تھی۔ سنگلز فائنل میں انھوں نے ماہور شہزاد کو شکست دی تھی۔ جبکہ ڈبلز ٹائٹل کی جیت میں ان کی ساتھی صائمہ منظور تھیں۔

2017 میں بھی انھوں نے پاکستان انٹرنیشنل سیریز میں ڈبلز ٹائٹل جیتا، اس وقت ان کی ساتھی کھلاڑی خضرہ رشید تھیں۔

2020 میں انھوں نے کینیا میں ہونے والے ٹورنامنٹ میں ماہور شہزاد کے ساتھ ڈبلز ایونٹ میں چاندی کا تمغہ جیتا۔