اعظم خان: سکواش کے معروف کھلاڑی اور برٹش اوپن کے چار بار کے فاتح 94 برس کی عمر میں انتقال کر گئے

سکواش

،تصویر کا ذریعہCourtesy Twitter/@AzamKhanSquash

    • مصنف, عبدالرشید شکور
    • عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

اکواش کی سب سے معتبر چیمپئن شپ برٹش اوپن چار بار جیتنے والے پاکستان کے معروف کھلاڑی اعظم خان ہفتے کے روز لندن میں انتقال کرگئے۔ان کی عمر 94 برس تھی۔

وہ کافی عرصے سے علیل تھے تاہم ان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے انتقال کرگئے ہیں۔

ان کی پوتی کارلا خان نے ان کے انتقال کی تصدیق کردی ہے جو خود بھی انٹرنیشنل سکواش کھلاڑی رہی ہیں۔

X پوسٹ نظرانداز کریں
X کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو X کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے X ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

تنبیہ: دیگر مواد میں اشتہار موجود ہو سکتے ہیں

X پوسٹ کا اختتام

' مجھے بھائی صاحب کا احترام عزیز تھا'

سکواش کے کھیل میں ہاشم خان نے جس شاندار روایت کا آغاز کیا تھا اسے آگے بڑھانے میں اعظم خان پیش پیش رہے تھے۔

ہاشم خان نے مشہور زمانہ برٹش اوپن کا اعزاز سات بار حاصل کیا تھا۔ یہ ریکارڈ 23 سال قائم رہا جسے آسٹریلیا کے جیف ہنٹ نے توڑا لیکن پھر جہانگیرخان نے دس بار جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کردی۔

اعظم خان برٹش اوپن کا اعزاز چار بار جیتنے میں کامیاب ہوئےلیکن عام رائے یہ ہے کہ وہ یہ ٹائٹل مزید جیت سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنے بڑے بھائی ہاشم خان کے احترام میں ان سے کبھی بھی جیتنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

یہ بات خود اعظم خان نے کچھ عرصہ قبل بی بی سی اردو کو دیے گئے انٹرویو میں کہی تھی ۔

'مجھے بھائی صاحب کا احترام عزیز تھا لہذا میں نے ان سے کبھی جیتنے کے بارے میں نہیں سوچا تھا لیکن یہ ماننا پڑے گا کہ بھائی صاحب بہت اچھا کھیلتے تھے انھیں ہرانا آسان نہ تھا۔'

اعظم خان ، ہاشم خان کو ہمیشہ بھائی صاحب کہہ کر پکارتے تھے۔

اعظم خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنے بھائی ہاشم خان کو صرف ایک بار ہرایا تھا اور وہ بھی اسوقت جب ہاشم خان ان فٹ ہوگئے تھے اور انھیں پتہ تھا اگر وہ مجھ سے سیمی فائنل جیت بھی گئے تو ان کے لیے فائنل میں روشن خان کو ہرانا ممکن نہ ہوسکے گا لہذا میں نے ہاشم خان سے کہا کہ وہ مجھے جیتنے دیں ۔ میں نے فائنل میں روشن خان کو صرف ُانیس منٹ میں شکست دی تھی جو برٹش اوپن کی تاریخ کا سب سے یکطرفہ فائنل ثابت ہوا تھا۔'

اعظم خان ُاس دور کو دو بھائیوں کی برتری کے طور پر یاد رکھا کرتے تھے۔

'اس دور میں زیادہ تر فائنلز ہم دونوں بھائیوں کے درمیان ہی ہوا کرتے تھے اور ُاس وقت کے برطانوی اخبارات کی شہ سرخیاں یہی ہوا کرتی تھیں فیملی افیئر ۔ تمام اخبارات لکھا کرتے تھے کہ فائنل میں دونوں بھائی مدمقابل ہیں اور سب کو پتہ ہے کہ کون جیتے گا۔'

سکواش

،تصویر کا ذریعہCourtesy Twitter/@AzamKhanSquash

،تصویر کا کیپشنہاشم خان اور اعظم خان

میں نے کچھ عرصہ قبل لندن میں اعظم خان سے کیے گئے تفصیلی انٹرویو میں یہ سوال کیا تھا کہ اگر آپ یہ سب کچھ آج کررہے ہوتے تو آپ پر میچ فکسنگ کا الزام لگ جاتا؟

اس پر اعظم خان نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا 'آج کے دور میں بھائی بھائی کو نہیں چھوڑتا لیکن وہ دور مختلف تھا جب رشتوں کا احترام کیا جاتا تھا اور بڑوں کی عزت کی جاتی تھی۔'

اعظم خان نے سکواش کھیلنا کیسے شروع کیا؟

اعظم خان کے اسکواش شروع کرنے کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔ وہ پشاور میں ایئرفورس کی جانب سے ٹینس کھیلتے تھے لیکن ہاشم خان کو احساس تھا کہ اسکواش کی جس روایت کو انہوں نے شروع کیا ہے اسے اعظم خان ہی آگے بڑھاسکتے ہیں

وہ نہیں چاہتے تھے کہ برٹش اوپن کا ٹائٹل کسی غیر کے ہاتھوں میں جائے لہذا انھوں نے اعظم خان کو اسکواش کی تربیت دینی شروع کردی اور انھیں انگلینڈ لے گئے لیکن اعظم خان کے لیے انٹرنیشنل اسکواش میں داخل ہونا آسان نہ تھا جس کا اظہار انہوں نے یوں کیا تھا ۔

'برطانوی اسکواش ایسوسی ایشن نے مجھ پر یہ اعتراض کیا تھا کہ میرا اسکواش میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں ہے اور اس نے یہ شرط رکھی کہ اگر میں برٹش اوپن کھیلنا چاہتا ہوں تو مجھے ٹرائل میچ کھیلنا ہوگا۔ میں نے یہ چیلنج بھی قبول کیا اور برطانوی کھلاڑی براؤن فلپ کے خلاف ٹرائل میچ جیتا۔'

سکواش

،تصویر کا ذریعہCourtesy Twitter/@AzamKhanSquash

اعظم خان نے جس دور میں اسکواش کھیلی ُاس وقت برٹش اوپن جیتنے پر پچاس پاؤنڈ کی انعامی رقم ملتی تھی جبکہ برٹش پروفیشنل اور اسکاٹش اوپن کی جیت پر تیس پاؤنڈ کی انعامی رقم مقرر تھی لیکن وہ ازراہ تفنن کہا کرتے تھے کہ انھوں نے روٹی کے لیے اسکواش کھیلی۔

'ہم روٹی کے لیے اسکواش کھیلا کرتے تھے اور دل ودماغ میں بس یہی ایک بات چھائی ہوئی ہوتی تھی کہ کسی غیر سے نہیں ہارنا ۔یہ ہمارے لیے غیرت کا معاملہ تھا۔ آج پاکستانی اسکواش کی تنزلی کی ایک وجہ یہ ہے کہ سب کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔'

اعظم خان کو اس بات کا سخت افسوس تھا کہ برٹش اوپن میں ان کی غیرمعمولی کارکردگی کے بعد پاکستان ایئرفورس نے انھیں قلی (پورٹر) سے ترقی دے کر الیکٹریشن کے طور پر ترقی دی لیکن ایک سال بعد دوبارہ قلی بنادیا جس سے دلبرداشتہ ہوکر انھوں نے پاکستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور1955 میں انگلینڈ میں مستقل سکونت اختیار کرلی تھی۔

اعظم خان کوگھٹنے کی تکلیف نے مزید کھیلنے کی اجازت نہیں دی لیکن درحقیقت بارہ سالہ بیٹے کی موت نے ان کی زندگی ہی بدل دی تھی۔