آپ اس وقت اس ویب سائٹ کا ٹیکسٹ پر مبنی ورژن دیکھ رہے ہیں جو کم ڈیٹا استعمال کرتا ہے۔ مرکزی ویب سائٹ جہاں تمام تصاویر اور ویڈیوز موجود ہیں دیکھیے
سمیع چوہدری کا کالم: کاش مشفق الرحیم کے گھر والے مان جاتے!
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
کسی اجنبی دیس میں ٹیسٹ میچ جیتنا نہایت دشوار گزار کام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹیمیں غیر ملکی دوروں کے لیے شیڈول میچوں سے کم از کم دو ہفتے پہلے میزبان ملک پہنچ جاتی ہیں اور ڈومیسٹک ٹیموں کے خلاف دو چار پریکٹس میچز کھیلنے کو ترجیح دیتی ہیں تا کہ نامانوس کنڈیشنز میں اپنے صبر اور ہمت کا پیمانہ آزمانے کا پورا موقع ملے۔
مگر جب بات آتی ہے پاکستان کی میزبانی میں کھیلنے کی، تو یہاں مسئلہ یہ درپیش ہے کہ سکیورٹی وجوہات کی بنا پر کوئی بھی ٹیم اس پہ آمادہ نہیں ہوتی کہ وہ شیڈول میچ سے دو ہفتے کیا، دو دن ہی پہلے پہنچ جائے۔
یہی سبب ہے کہ کل جب مومن الحق کی قیادت میں بنگلہ دیشی ٹیم راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں اترے گی تو پریکٹس کے کھاتے میں کوئی ٹور میچ نہیں، محض چند گھنٹوں کا ایک ٹریننگ سیشن ہو گا اور اسی کی بنیاد پہ رسل ڈومنگو اپنی ٹیم منتخب کر چکے ہوں گے۔
سمیع چوہدری کے مزید کالم
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
ایک آدھ ٹریننگ سیشن میں یہ کیونکر ممکن ہے کہ بنگلہ دیشی کھلاڑی راولپنڈی کی وکٹ کا مزاج سمجھ جائیں اور میچ کے چار پانچ سیشن جیتنے کی بھرپور منصوبہ بندی بھی کر لیں۔
رسل ڈومنگو نے جب سے بنگلہ دیش کی کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی ہے، وہ سلیکشن میں تسلسل پہ زور دیتے رہے ہیں اور اس دورے کے لیے بھی بعض کھلاڑیوں بالخصوص محمد متھن کا انتخاب اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ ایک دو سیریز کی فارم کی بنیاد پہ طویل المعیاد فیصلے نہ کر لیے جائیں۔
بنگلہ دیش کے بیٹنگ کوچ نیل میکنزی نے بہت دلچسپ بات کی کہ گراؤنڈ میں اتر کر صرف گیم پہ دھیان دیں، ’نیم‘ پہ نہیں۔ یہ بات بالخصوص یاسر شاہ کے تناظر میں کہی گئی جو اس وقت بلاشبہ دنیا کے بہترین لیگ سپنر ہیں۔
یہ امر اپنی جگہ کہ پچھلے ایک سال میں یاسر شاہ کی فارم کچھ خاص قابلِ ذکر نہیں رہی لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ اس درجے کے کھلاڑی کو اپنی ساری آب و تاب واپس پانے کے لیے صرف ایک اچھا سیشن ہی کافی ہوتا ہے۔
سری لنکا کے خلاف کراچی میں شاندار فتح نے پاکستان کیمپ کا مورال بہت بلند کر دیا ہے اور اظہر علی یقیناً سال بعد لارڈز کے ٹیسٹ چیمپئین شپ فائنل پہ نگاہیں جمائے بیٹھے ہیں۔ اظہر علی کی توقعات یکسر بے سبب نہیں ہیں۔ کراچی میں ٹاپ آرڈر کی پرفارمنس نے بیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کی سبھی الجھنیں سلجھا دی ہیں۔
بولنگ میں جس طرح سے نسیم شاہ نے اپنی اہمیت ثابت کی اور کراچی کی پہلی اننگز میں جیسے شاہین شاہ آفریدی تباہ کن فارم میں نظر آئے، وہ مصباح اور وقار یونس کے لیے نہایت مثبت پہلو ہیں۔ ان پہلوؤں کے ساتھ اگر محمد عباس کے تجربے اور یاسر شاہ کی مہارت کو بھی نتھی کر دیا جائے تو ایک مثالی بولنگ اٹیک کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے۔
اس کے برعکس بنگلہ دیشی سکواڈ کو دیکھا جائے تو تجربے کی ہی نہیں، مہارت کی بھی شدید کمی ہے۔ اس سکواڈ کے تجربہ کار ترین بولر روبیل حسین ہیں جو ٹیسٹ کرکٹ میں بدترین اوسط کا ریکارڈ رکھتے ہیں۔
مومن الحق کی کپتانی پہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ دیکھنا ہو گا کہ مشفق الرحیم اور شکیب الحسن جیسے گھاگ کھلاڑیوں کی عدم موجودگی میں وہ پریشر سے کیسے نمٹتے ہیں۔
پچھلا ایک سال بنگلہ دیش کے لیے ٹیسٹ کرکٹ میں قطعاً خوش کن نہیں رہا۔ مسلسل تین سیریز میں ہار کو جو چیز مزید شرمناک بناتی ہے، وہ انڈیا کے خلاف بڑے مارجن سے شکست ہے۔
لیکن انڈیا کے خلاف سیریز میں جو واحد مثبت پہلو بنگلہ دیشی ڈریسنگ روم کے لیے رہا، وہ مشفق الرحیم کی پرفارمنس تھی جو باقی ساری ٹیم کے برعکس پریشر کے لمحات میں تن کر کھڑے ہوئے اور اس ٹور میں بنگلہ دیش کے کامیاب ترین بلے باز رہے۔
ستم ظریفی کہ یہ واحد مثبت پہلو بھی اب بنگلہ دیش کے لیے منفی پہلو میں بدل چکا ہے کیونکہ مشفق کے گھر والے نہیں مانے اور وہ تین ٹکڑوں میں بٹے دورۂ پاکستان کے کسی بھی ٹکڑے کا حصہ نہیں ہیں۔
اب سیریز کا نتیجہ جو بھی نکلے، بنگلہ دیشی بورڈ اور مشفق الرحیم اتنا تو سوچیں گے کہ کاش ان کے گھر والے مان جاتے کیونکہ اگر ایسا ہو جاتا تو نتائج نہ بھی سہی، کم از کم مارجن کا فرق تو پڑ جاتا۔