#PakvSL پر سمیع چوہدری کا کالم: 'اگر اظہر علی مجروح وقار بحال نہ کر پائے؟'

    • مصنف, سمیع چوہدری
    • عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار

چند روز پہلے اظہر علی دورۂ آسٹریلیا کی شرمناک کارکردگی کی بابت بات کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں قومی ٹیم کی ناقص پرفارمنس سے ہمارا فخر اور وقار مجروح ہوا ہے۔

کل اظہر علی کی ٹیم کے پاس موقع ہو گا کہ وہ اس مجروح وقار کی بحالی کے لیے کوئی اقدام اٹھا سکیں۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ مصباح کی ٹیم کا سامنا مکی آرتھر کی ٹیم سے ہوگا۔ مکی آرتھر کی پاکستانی ڈریسنگ روم سے شناسائی کچھ پرانی نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تین چار ماہ پہلے تک مکی آرتھر اسی پاکستانی ٹیم کے کوچ تھے اور جب ورلڈ کپ کے بعد مصباح اور وسیم اکرم کی کرکٹ کمیٹی نے مکی آرتھر کی کارکردگی کا جائزہ لیا تو مکی آرتھر کا بھی فخر اور وقار کافی حد تک مجروح ہوا ہوگا۔

اپنی برخاستگی کے کچھ روز بعد کرِک انفو سے بات کرتے ہوئے مکی آرتھر نے کہا تھا کہ پاکستان کیمپ میں انھیں جن لوگوں پہ اعتماد تھا، انہی نے اس اعتماد کو ٹھیس پہنچائی۔

ان کا اشارہ وسیم اکرم اور مصباح الحق کی طرف تھا۔ یہ وسیم اکرم ہی تھے جنہوں نے رمیز راجہ کے ساتھ مل کر کوچنگ اسائنمنٹ کے لیے مکی آرتھر کا انٹرویو کیا تھا اور تقرر کی سفارش بھی کی تھی۔

مصباح پہلے کپتان تھے جو مکی آرتھر کی کوچنگ میں کھیلے۔ گو بظاہر مصباح اور مکی آرتھر کے درمیان معاملات ٹھیک ہی رہے مگر پسِ پردہ کافی اختلافات پنپتے رہے۔

میڈیا تک یہ اختلافات دورۂ آسٹریلیا میں تب پہنچے جب وقار یونس کے گھر ٹیم اور صحافیوں کے ڈنر پہ مصباح کھل کر اس بارے بولے۔ انھوں نے شکوہ کیا تھا کہ آرتھر کی کوچنگ صرف ایک وائٹ بورڈ اور مارکر تک محدود رہتی ہے۔ ان کے بقول گیم پلاننگ اور گیم سینس کے حوالے سے مکی آرتھر کوئی سمت دکھانے میں ناکام رہے۔

وقت کے پُلوں تلے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ مکی آرتھر اب سری لنکا کے کوچ بن چکے ہیں اور ان سے خائف مصباح الحق اب پاکستان کرکٹ کے بلا شرکتِ غیرے مالک و مختار ہیں۔

ٹیم سیلیکشن میں مصباح الحق نے پہلے ہی ایک مقبول فیصلہ کر ڈالا ہے جو فواد عالم کی واپسی کی صورت میں روپذیر ہوا ہے۔ سوشل میڈیا کے بس میں ہوتا تو فواد عالم تین سال پہلے ہی سکواڈ کا حصہ بن چکے ہوتے۔

آخری بار جب فواد عالم نے ایک روزہ میچز میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی تو وہ ایشیا کپ کا فائنل تھا جہاں انھوں نے سری لنکا کے خلاف ایک سینچری کی تھی۔ اس سینچری کے دوران دوسرے اینڈ پہ انھیں مصباح کا ساتھ حاصل تھا۔

سری لنکا نے پی سی بی کی توقعات کے عین مطابق 'فُل سٹرینتھ' سکواڈ بھیج دیا ہے۔ اب مقابلہ برابر کا ہوگا۔ اگر اظہر علی جیت گئے تو کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ بچوں کی ٹیم سے جیتے۔

بعینہٖ اگر اظہر علی ہار گئے تو کوئی ایسا جواز نہیں ہو گا کہ نیا سیٹ اپ تھا، نئی ٹیم تھی، ناتجربہ کار بولر تھے۔

پاکستان نے اس سیریز کے لیے جو سکواڈ چنا ہے، وہ ہر لحاظ سے متوازن ہے۔ ہوم گراؤنڈ کا فائدہ بھی پاکستان کے حق میں جائے گا اور کنڈیشنز تو وہی ہیں جن میں یہ سارے کرکٹرز پل بڑھ کر جوان ہوئے ہیں۔

سو، اب جواز بھی باقی کوئی نہیں بچا اور کواکب بھی پاکستان کے حق میں ہیں۔ اگر اب بھی اظہر علی مجروح وقار کو بحال نہ کر پائے تو کیا توجیہہ کریں گے اور کیونکر کریں گے؟