اب پاکستانی ٹیل بیٹنگ بھی وننگ یونٹ کا بھرپور حصہ بن چکی ہے

،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, سمیع چوہدری
- عہدہ, کرکٹ تجزیہ کار
ماڈرن کرکٹ میں چاہے آپ پہلے بیٹنگ کریں یا بعد میں، اننگز کی رفتار کچھ ایسی رہتی ہے کہ ٹیل اینڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ کوئی دور تھا جب پاکستان ون ڈے کے آخری دس اوورز میں ستر اسی رنز بھی آسانی سے بنا لیا کرتا تھا. عبدالرزاق تو کبھی کبھار آخری دو اوورز میں ہی پچاس رنز بٹور لیتے تھے۔
لیکن پچھلے چند سال میں جہاں پاکستان اپنی بیٹنگ کے سبب مختصر فارمیٹ میں پے در پے مشکلات کا شکار رہا ہے، اس کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی ٹیل کی بیٹنگ بھی تھی۔
جب ٹاپ آرڈر پہلے ہی پرفارم نہ کر رہا ہو، اور سارا بوجھ مڈل آرڈر پہ آ جاتا ہو تو ایسے میں مڈل آرڈر اگر اپنی سی کوشش کر بھی جاتا تو بھی یہ یقین نہ ہوتا تھا کہ آخری چار وکٹیں 40 گیندوں پہ 30 رنز کر پائیں گی۔
جس وقت سرفراز رن آؤٹ ہوئے، پاکستان کی میچ پہ گرفت ڈھیلی پڑنے لگی تھی۔ سری لنکا اچانک حاؤی ہونے لگا۔
End of سب سے زیادہ پڑھی جانے والی
یوں تو 14 گیندوں پہ 21 رنز آسانی سے بن سکتے ہیں اور ٹی ٹوئنٹی میں تو ایسا معمول کی بات ہے لیکن جب سامنے پاکستان کی بیٹنگ ہو اور طرہ یہ کہ اس کے بعد وکٹیں بھی صرف تین ہی باقی ہوں تو پھر اعصاب مضمحل ہونے لگتے ہیں۔
لوئر آرڈر کی بیٹنگ اوسط میں پاکستان کا ریکارڈ بھی کوئی ایسا خوش کن نہیں ہے کہ شائقین سکون سے اپنی نشستوں پہ جمے رہ سکیں۔ جب کبھی ایسی صورتحال آتی ہے تو چہروں پہ تفکرات امڈ آتے ہیں، ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھ جاتے ہیں اور ایسا ہی منظر ابوظہبی میں بھی تھا۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیونکہ سری لنکا نے بولنگ اور فیلڈنگ میں جس ڈسپلن کا مظاہرہ کیا تھا، اس کے بعد بعید نہیں تھا کہ 14 گیندوں پہ 21 رنز واقعی نہ بن پاتے۔
فہیم اشرف کریز پر موجود تھے اور 6 گیندوں پہ 12 رنز درکار۔ وقار یونس کہتے ہیں، عموماً ایسا ہو جاتا ہے کہ آخری اوور میں پندرہ بیس رنز بھی بن جاتے ہیں لیکن اگر نہ بننے ہوں تو پانچ بھی نہیں بن پڑتے۔
پچھلی پی ایس ایل میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کوئٹہ کی سات وکٹیں باقی تھیں اور صرف پانچ ہی رنز درکار تھے مگر محمد سمیع نے آخری اوور میں پانچ رنز نہیں بننے دیے تھے۔
فہیم اشرف کے لیے تو ویسے ہی یہ رات خوش بخت ثابت ہوئی تھی۔ ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں پاکستان کی جانب سے پہلی ہیٹ ٹرک ان کے نصیب میں آئی اور فہیم اشرف کی وجہ شہرت بھی ابھی ہمارے حافظے میں تازہ ہے۔
پاکستان پہلی بار جب فہیم اشرف سے آشنا ہوا تو اس کی بنیاد ان کی بولنگ نہیں بلکہ بیٹنگ تھی جب چیمپئنز ٹرافی کے وارم اپ میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف ایک ہارا ہوا میچ انہوں نے اپنی طوفانی اننگ سے جتوا دیا تھا۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کے بارے میں مزید پڑھیے
بھلا فہیم اشرف کے ہوتے چھ گیندوں پہ 12 رنز کیوں نہیں بن سکتے؟ اور دوسرے اینڈ پہ شاداب خان بھی موجود ہیں جو کچھ ہی روز پہلے ایک بحرانی کیفیت میں ففٹی بنا چکے ہیں۔
لیکن جب آخری اوور کی پہلی ہی گیند آئی تو پریشر کے طفیل فہیم اشرف کا نشانہ خطا ہو گیا۔ اب نہ صرف یہ کہ بارہ رنز پانچ گیندوں پہ بنانا تھے، بلکہ وکٹیں بھی صرف دو ہی رہ گئی تھیں۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images
اب یہ میچ تقریباً پاکستان کے ہاتھ سے نکل چکا تھا کیونکہ ایسی جگہ پہ بولر کچھ بھی نہ کرے، صرف مڈل میں ہی اچھی لینتھ پہ گیند پھینکتا رہے تو بھی بیٹنگ سائیڈ کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔
پھر باؤنڈری کی خواہش میں بلا وقت سے پہلے اٹھنے لگتا ہے اور کیچ بلند ہو جاتے ہیں، سنگلز کو ڈبلز میں بدلتے بدلتے رن آؤٹ ہونے لگتے ہیں۔
سری لنکا کو پورا یقین تھا کہ اب یہ میچ ان کے ہاتھ سے کہیں نہیں جائے گا۔ سنجایا اگرچہ انٹرنیشنل کرکٹ میں نو وارد ہیں مگر پچھلے میچ کی طرح اس میچ میں بھی وہ نہایت شاندار بولنگ کر رہے تھے۔ اوور کی پہلی ہی گیند پر وکٹ لینے کے بعد ان کا اعتماد کتنا بڑھ گیا ہو گا اب شاداب کے اعصاب کا امتحان تھا۔
لیکن شاداب خان کچھ اور ہی سوچ رہے تھے۔ ایسے پریشر میں تکنیک اور مہارت کی اہمیت کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ صرف اور صرف اعتماد کی آزمائش ہوتی ہے اور شاداب نے جس اعتماد سے وہ چھکا رسید کیا، اس نے پاکستان کو میچ تو جتوایا ہی، ساتھ ہی یہ یقین بھی دلا دیا کہ اب پاکستانی ٹیل صرف بولنگ ہی نہیں، بیٹنگ میں بھی اپنا پورا پورا حصہ ڈالنے کے قابل ہو گئی ہے۔
اب یہ ٹیل بھی وننگ یونٹ کا بھرپور حصہ بن چکی ہے۔











